Oct 15, 2022

سیرت کی مفہوم غرض و غایت

 

سیرت کا مفہوم اور معنی

سیرت کی اہمیت و ضرورت پر گفتگو کرنے کے بعد  مناسب معلوم ہوتاہے کہ سیرت کی لغوی اور اصطلاحی تعریف اور اسکی ماخذ  و  مصادر پر روشنی ڈال دی جائے تاکہ مطالعہء سیرت کی اہمیت اور ضرورت کو بیان کرنا اور سمجھنا دونوں آسان ہوجائے۔

لغوی تعریف

 سیرت لغت میں طریقہ ،عادت ،طرز زندگی اور سوانح عمری کے معنی میں آتا ہے،اور اس کی جمع( سِیَر) آتی ہے،لفظ سیرۃ کی تعریف کتب لغت میں ان الفاظ سے کی گئی ہے۔ السيرة الحال التي يكون عليها الانسان ۔  یعنی    سیرت وہ حالت ہے جس پر انسان ہوتا ہے۔

 السيرة لغة  : تعني السّنة والطريقة، والحالة التي يكون عليها الإنسان وغيره. يُقال فلان له سيرة حسنة، وقال تعالى: (سنعيدها سيرتها الأولى) (طه:21(    )إقامة الحجة على العالمين بنبوة خاتم النبيين 1/ 1(

المعجم الوسیط میں ہے: السنة، الطريقة، الحالة التي يكون عليها الانسان، وسيرة النبوية و كتب السير ماخوذة من السيرة بمعنى الطريقة .

ترجمہ: سیرت سنت، طریقہ،وہ حالت جس پر انسان ہوتا ہے ،اور سیرت نبویہ اور کتب سیر سیرت بمعنی طریقہ سے ماخوذ ہے۔

اصطلاحی تعریف

قاضی محمد اعلیٰ تھانوی نے اپنی مشہور کتاب ”کشاف اصطلاح الفنون“ میں سیرت کے لغوی معنیٰ بیان کرنے کے بعد لکھا ہے : ثم غلبت فی الشرع علی طریقة المسلمین فی المعاملة مع الکفار والباغین وغیرهما من المستأمنین والمرتدین وأهل الذمة ۔  یعنی شریعت کی اصطلاح میں اس لفظ کا زیادہ استعمال مسلمانوں کے اس طریقہ کار پر ہوتا ہے جو وہ کفار، غیرمسلم محاربین ، مسلمان باغی، مرتدین، اہل ذمہ وغیرہ سے معاملہ کے بارے میں اختیار کرتے ہیں۔ علامہ ابن ہمام نے بھی فتح القدیرمیں یہی بات لکھی ہے کہ شریعت کی اصطلاح میں ”سیرت “ سے مراد وہ طریقہ ہے جوکفار کے ساتھ جنگ وغیرہ میں اپنایا جائے۔

بعد کے ادوار میں سیرت کے اصطلاحی معنیٰ میں بھی توسع پیدا ہوا۔ چنانچہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے سیرت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: آنچہ متعلق بہ وجود پیغمبر و صحابہ کرام و آل عظام است و از ابتدائے تو لد آں جناب تاغایت وفات آں را سیرت گویند یعنی آنحضورﷺ کے وجود گرامی ، آپ کے صحابہ کرام، اہل بیت، آل عظام سے جوچیز بھی متعلق ہے ۔ آنحضورﷺ کی ولادت مبارکہ سے آپ کے اس دنیا سے تشریف لے جانے تک ، ان سب کی تفصیل کو سیرت کہتے ہیں۔(عجالہ نافعہ،ص14(

موضوع

    نبی کریم ﷺکی ذات بابرکات اور احوال۔

غرض و غایت

سیرت مبارکہ کی تفصیل جان کر اس پر عمل کر کے دنیا اور آخرت کی کامیابی ، اور اس کی روشنی میں بندوں کی بندگی سے نکل کر  خدا کی بندگی میں داخل ہونا ۔

مقدمہ

 

مقدمہ 

الحمد لله رب العالمين ، والصلاة والسلام على خاتم الأنبياء والمرسلين ، المبعوث رحمة للعالمين، محمد وعلى آله وصحبه أجمعين . أما بعد 

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ  بہت ضروری اور اہمیت کا حامل اور ناگزیر ہے . اللہ تعالی  نے قرآن کریم میں آنحضرت ﷺ کی ذات کو بہترین نمونہ قرار دے کر آپ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کا حکم ارشاد فرمایا ہے ۔

 لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا ۔21 

تمہارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور یوم آخرت کا امیدوار ہو، اور اللہ کو زیادہ سے زیادہ یاد کرے  ۔ احزاب  21

نبی کریم کی زندگی ، اور ان کی شخصیت مؤمنوں بلکہ پوری انسانیت کے لئے ایک مثال اور نمونہ ہے ۔  اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کی اتباع لازم قرار دیا ہے ۔ تو اس زاویہ سے ہمارے لئے سیرت پاک کا مطالعہ نہایت ہی اہم اور ضروری ہوجاتا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات زندگی کے ہر شعبہ کے لئے ایک مثال اور نمونہ پیش کرتی ہے ، خواہ اس کا تعلق سماجیات سے ہو . یا وہ معاملہ سیاسیات سے جڑا ہو . عائلی زندگی ہو یا عدالتی نظام ، جملہ گوشہ حیات کے مسائل کا حل اور ان کے آداب و قوانین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ میں موجود ہے . اس لحاظ سے ایک سیاست دان  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی میں اپنے مسائل کا حل ڈھونڈ سکتا ہے ، ایک تاجر تجارت اور تجارت میں امانت داری کے آداب آپ کی سیرت طیبہ سے سیکھ سکتا ہے . ایک شوہر امہات المومنین کے ساتھ آپ کے معاملات کو دیکھ کر اپنی عائلی زندگی کو خوش گوار بنا سکتا ہے . ایک ٹیم آپ کی زندگی سے سبق لیکر عزم استقلال سے مصائب کا سامنا کر سکتا ہے ۔ ایک حاکم اپنے رعایا کے ساتھ برتاؤ کے آداب آپ ﷺ کی بادشاہت سے لے سکتا ہے ۔ خلاصہ کلام ایک کامل زندگی کی مثال آپ ﷺ  کی زندگی میں موجود ہے ۔ اس اعتبار سے بھی سے سیرت طیبہ کا مطالعہ بے حد ناگزیر ہو جاتا ہے ۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےدریافت کیا گیا کہ نبی کریم  ﷺ کے اخلاق کیسے تھے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا  ( كان خلقُه القرآن)  آپ صلی اللہ کا اخلاق تو قرآن ہے " ۔ یعنی آپ کی شخصیت قرآن کی عملی نمونہ تھے ، اور ہماری شریعت کا دارومدار قرآن ہی ہے . اور قرآن کو صحیح مفہوم و معانی ، اس کو باریکیوں کے ساتھ سمجھنا اور اس کے تقاضوں پر اترنا ممکن نہیں الا یہ کہ آپ ﷺ  کی زندگی سے واقفیت حاصل کیا جائے ۔ چنانچہ قرآن کو سمجھنے کے زاویہ سے بھی سیرت النبی وسلم کا مطالعہ لازم ہے ۔ حضور (ﷺ) اپنے خطبوں کی ابتدا میں فرمایا کرتے تھے إن خيرَ الحديثِ كتابُ اللهِ وخيرَ الهديِ هديُ محمدٍ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ  ،  یعنی بہترین کتاب اللہ کی کتاب ہے اور بہترین نمونہ اور سیرت حضرت محمد رسول اللہ () کی ہے، حضور (ﷺ) کی سیرت ایک جامع سیرت اور ہر شخص کے لیے کامل نمونہ ہے۔

افسوس صد افسوس ! ہم اپنی زندگی کے اصل ہیرو ، اور آئیڈیل حضرت محمد مصطفی ﷺ سے اتنا ہی دور ہو گئے ہیں جتنا کہ ہمارا ان کی زندگی کو جاننا اور ان کی زندگی کے ہر کردار کی کاپی کرنا ضروری تھا ۔ ہم اور ہماری نئی نسل فلمی اور ڈرامائی اداکار و اداکارہ کی زندگی ، ان کی عادت ، ان کے فیملی پس منظر ، ان کا پسندیدہ رنگ حتی کہ ان کی بائٹ تک کا علم رکھتے ہیں جو کہ ہمارے آئیڈیل ہو نہیں سکتے ، اور اپنی زندگی کے اصل ہیرو کے متعلق بنیادی معلومات سے بھی عاری ہیں . میں یہ دعوی کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے 70% نوجوانوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کے حالات سے بھی واقف نہیں ہے چہ جائے کہ ہماری نوخیز نسل ۔

خیر ۔ نہایت ضروری ہے کہ ہم خود سیرت النبی ﷺ کو پڑھیں اور اس کے مطابق زندگی ڈھالنے کی کوشش کریں،اور اس کے  ساتھ ہم اپنی نئی نسل کی توجہ کو اس جانب مرکوز کرائیں  اس ضرورت کے پیش نظر ہمارے درسِ قرآن کے ساتھیوں نے باہم مشاورت کر کے ایک درس سیرت النبی ﷺ کی مقرر کرنے کی درخواست کی ، تو اللہ تعالی کی فضل و کرم سے یہ سلسلہ جاری ہوا اور ساتھ میں میرے دل میں یہ بات ڈال دی گئی کہ ان دروس کو قلم بند کیا جائے ، اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں سیرت النبی ﷺ کی صحیح دروس دینے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

        اخوکم فی اللہ   اکبر حسین اورکزئی حالا مقیم بدولۃ قطر

اہل عرب کی دینی اور اخلاقی حالت

  اہل عرب کی دینی اور اخلاقی حالت   چھ سو برس قبل از مسیح تک اہل عرب بت پرستی کی لعنت سے پاک اور دین ابراہیمی کے پیروکار تھے مگر رفتہ رفتہ ج...