Oct 20, 2022

اہل عرب کی دینی اور اخلاقی حالت

 

اہل عرب کی دینی اور اخلاقی حالت 

چھ سو برس قبل از مسیح تک اہل عرب بت پرستی کی لعنت سے پاک اور دین ابراہیمی کے پیروکار تھے مگر رفتہ رفتہ جزیرۃ  العرب سے متصل بت پرست اقوام کے اثرات ان میں سرایت کر نے لگے ۔ وحی کی رہنمائی سے محرومی اور عمرو بن لحئ جیسے کج فکر لوگوں کی سر براہی نے نہ صرف قریش بلکہ جزیرۃ العرب کے تمام قبائل کو دین ابراہیمی سے بہت دور پھینکا اور دیکھتے ہی دیکھے بتوں کی عبادت پورے عرب میں عام ہوگئی ۔ پتھر کے جسموں کو حاجت روا  اور مشکل کشا جانے لگا ۔ لوگوں کا یہ عقیدہ بن گیا کہ ان مجسموں میں ایسی ارواح ہیں جو نفع وضرر کی مالک ہیں اور امور کا ئنات کے مختلف شعبوں پر قدرت رکھتی ہیں ۔ یہ بھی کہا جا تا تھا کہ یہ معبود اللہ کے قرب کا وسیلہ اور اس کی بارگاہ میں سفارشی ہیں، اللہ تعالی نے انہیں دنیا کے اختیارات عطا کر دیے ہیں ۔مشرکین کا خیال تھا کہ خالق کائنات تو اللہ ہے مگر اب وہ فارغ ہے اور اس کی نیابت میں دوسرے معبود تمام امور کو چلا رہے ہیں جن میں سے کوئی فتح و شکست کا مالک ہے ، کوئی زندگی اور موت کا کوئی روزی دیتا ہے اور کوئی صحت کوئی بیماریاں دور کرتا ہے اور کوئی قحط سالی ۔ حرم کے تبرکات کے ساتھ حد سے زیادہ عقیدت بھی بدعقیدگی کا سبب بنی ۔ بعض عرب قبائل مکہ سے واپسی پریہاں کے پتھر اٹھا کر لے جاتے ، کعبہ کی طرح ان کا طواف کر تے ، بعد میں ان پتھروں کی با قاعدہ پو جا ہونے لگتی (سيرة ابن هشام  ۱ / ۷۷)

 عرب میں قسمہاقسم کے بت تھے ۔ بعض بڑے بھاری بھرکم اور اپنی جگہ گڑے ہوۓ تھے ۔ مکہ کے اکثر مشہور بت ایسے ہی تھے ، جبکہ ایسے ہلکے پھلکے مجھے بھی تھے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیے جا سکتے تھے۔عرب ان بتوں کو اصنام کہتے تھے، جو (صنم ) کی جمع ہے ۔ کہا جا تا ہے کہ اس کی اصل صلم ( Solm ) ہے جو آرامی زبان کا لفظ ہے ۔ عربی میں آ کر یہ لفظ (صنم ) بن گیا

بتوں کے پجاریوں کو ’ ’ کا ہن ‘ کہا جاتا تھا اور انہیں اللہ کے تقرب اور اس سے تعلق کا واسطہ مانا جاتا تھا ۔ قریش سمیت تمام عرب قبائل کا ہنوں کے پیرو کار تھے ۔ وہ کاہنوں ، پجاریوں اور بت خانے کے خصوصی خادموں کو ہمراہ لیے بغیر کبھی جنگ کے لیے نہیں نکلتے تھے ۔ یہی کا ہن لشکر کے لیے نیک فالی یا بد فالی کے اشارے اخذ کرتے تھے ۔ اہم  فیصلوں میں ان کی راۓ معتبر مانی جاتی تھی ۔ ان کا ہنوں میں قبیلہ کلب کا زہیر بن حباب اور قبیلہ بنوعبس کا زہیر بن د پر مشہور ہیں ۔ (التاريخ الاسلامي العام ، ص ۱۲۸ ، ۱2۹)

منا ۃ ۔ وہ پہلا بت تھا جس کی عرب میں پرستش کی گئی ، اسے قسمت کا مالک مانا جاتا تھا ۔ اسے بنوخزاعہ کا رئیس عمر و بن نجی شام سے لایا تھا ۔ قریش کے علاوہ بنوہذیل اور یثرب میں آباد اؤس اور خزرج بھی اس کے خاص پجاری تھے ۔( التاريخ الاسلامي العام ، ص143)

( ہُبَلْ) قریش کا سب سے بڑا بت تھا جسے عمر و بن لحئ نے کعبہ میں نصب کیا تھا ۔ یہ سرخ عقیق سے تراشا ہوا انسانی شکل کا مجسمہ تھا ۔ اس پر سواونٹوں کی بھینٹ چڑھائی جاتی تھی ۔ کعبہ کے طواف کے بعد لوگ اس کے پاس سرمنڈواتے تھے ، اس کے چڑھاووں کا مستقل خزانہ تھا ، جس کے لیے ایک نگراں مقرر تھا ۔ (اخبار مكة لابي الوليدالازرقی : ۱۱۷/۱ تا ۱۱۹ ط دار الاندلس)

 دوسرا مشہور بت(لات ) تھا جو طائف کے بت خانے میں نصب تھا ۔ یہ ایک سفید چوکور مجسمہ تھا ۔ عرب اس کے نام کی قسمیں کھایا کرتے ۔  (الاصنام ، ابن کلبی ، ص ۵ ، قلمی نسخه)اسے بنوثقیف ( جو طائف اور اس کے گردونواح میں آباد تھے ) کے ایک سخی انسان کے نام پر بنایا گیا تھا جو حاجیوں کوستو گھی میں تر کر کے دیتا تھا ۔ اس کی موت کے بعد عمر و بن لحئ کے بہکاوے میں آ کر طائف کے لوگوں نے اس کا بت بناڈالا ۔( التاريخ الاسلامي العام ، ص ۱۵۴ ، ۱۵۵)

اہل عرب درختوں کی عبادت بھی کرتے تھے ، جیسے عزی نامی مشہور مؤنث بت بنو غطفان کے ایک ببول کے درخت کے نام پر بنایا گیا تھا ، جسے دیوی کی حیثیت دی گئی تھی ۔ قریش کے لوگ’’عبدالعز ی ‘ ‘ نام بڑے فخر سے رکھا کرتے تھے ۔ غزی کی الگ قربان گاہ تھی جہاں جانور قربان کیے جاتے تھے ۔ ( اخبار مكة ، الازرقى : ۱۲۶/۱)

ذات انواط :- بھی قریش کا مشہور مقدس درخت تھا جس کی عبادت کے لیے ایک دن کا اعتکاف کیا جا تا تھا ۔( اخبار مکہ الازرقی 1/ 129،130)

 جنگ کے دوران ہبل ، لات اور غزی کے نعرے لگا کر قوم کا حوصلہ بڑھایا جا تا تھا ۔ بت پرستی کی ریل پیل کا یہ عالم تھا کہ تین سو ساٹھ بت کعبہ کے صحن میں تھے ، جن میں اساف اور نائلہ نامی بہت بڑے مشہور تھے ، لوگ طواف کا آغاز اساف سے کرتے اور اختتام نائلہ پر کرتے ۔ ان میں سے پہلا بت مذکر تھا اور دوسرا مؤنث ۔ ان کے علاوہ  دومتہ الجندل میں’’و د ‘ ‘ کی  پرستش ہوتی تھی جس کی نگرانی قریش کے پاس تھی ۔ ’ ’ سواع ‘ ‘ بنو ہذیل کا بت تھا۔اہل جرش کے ہاں’یغوث ‘ ‘ نامی بت کی پوجا ہوتی تھی جوشیر کی شکل کا تھا ۔ اہل خیوان نے’’یعوق ‘ ‘ کی عبادت اختیار کر رکھی تھی جو گھوڑے کی صورت جیسا تھا ، یمن کا قبیلہ حمیر’نسر ‘ ‘ کا پجاری تھا جو گد ھ کا مجسمہ تھا ، یہ پانچوں نام ( ود ، سواع ، یعوث ، یعوق اورنسر ) اصل میں حضرت نوح علیہ السلام  کی قوم کے بتوں کے تھے جو ہزاروں سال قبل بابل ( عراق ) میں غرق ہو چکی تھی مگر ایک زمانے کے بعد بت پرستوں نے انہی ناموں کوئی شکلوں میں زندہ کر لیا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عرب بعض جانوروں کے تقدس کے اس حد تک قائل تھے کہ ان کے مجسمے بنا کر انہیں پوجتے تھے ۔ التاریخ الاسلامی العام 143، 144

 مؤرخ ابن کلبی کا کہنا ہے ’ ’ مکہ کے ہر گھر میں ایک بت تھا جس کی لوگ عبادت کرتے تھے ، جب کوئی سفر پر جاتا تو بت کو چھو کر نکلتا ، واپس آ تا تو سب سے پہلے بت کو چھوتا ۔ الاصنام ابن کلبی 33۔

 کچھ لوگ بت پرستی کی جگہ ستاروں کو مقدس ، نظام دنیا کا مختار اور دعا کے لیے قبلہ و کعبہ سمجھتے  تھے ۔ یہ صائبین کہلاتے تھے ۔ مکہ والوں کی زبان میں ہرایسے شخص کو بھی’’صابی ‘ ‘ کہا جا تا تھا جو بت پرستی کا منکر ہو ۔ تاریخ الفکر الدینی الجاہلی ابراہیم القیومی  279

الغرض مشرکین نے مسجد حرام کو بھی بتوں سے بھر دیا، چنانچہ جب مکہ فتح کیا گیا تو بیت اللہ کے ارد گرد تین سو ساٹھ بت تھے جنہیں خود رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے توڑا ۔ آپ ہرایک کو چھڑی سے ٹھوکر مارتے جاتے تھے اور وہ گرتا جاتا تھا ۔ پھر آپ ﷺ نے حکم دیا اور ان سارے بتوں کو مسجد حرام سے باہر نکال کر جلا دیا گیا ۔ (مختصر سيرة الرسول از شیخ محمد بن عبدالوہاب ص ۱۳ ، ۵۰، ۵۱، ۵2)

الغرض شرک اور بت پرستی اہل جاہلیت کے دین کا سب سے بڑا مظہر بن گئی تھی جنہیں گھمنڈ تھا کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر ہیں ۔

 پھر اہل جاہلیت کے یہاں بت پرستی کے کچھ خاص طریقے اور مراسم بھی رائج تھے جو زیادہ تر عمرو بن لحئ کی اختراع تھے ۔ اہل جاہلیت سمجھتے تھے کہ عمرو بن لحئ کی اختراعات دین ابراہیمی میں تبدیلی نہیں بلکہ بدعت حسنہ ہیں ۔ ذیل میں ہم اہل جاہلیت کے اندر رائیج بت پرستی کے چند اہم مراسم کا ذکر کر رہے ہیں۔

(1) دور جاہلیت کے مشرکین بتوں کے پاس مجاور بن کر بیٹھتے تھے ، ان کی پناہ ڈھونڈھتے تھے ۔ انہیں زور زور سے پکارتے تھے اور حاجت روائی مشکل کشائی کے لیے ان سے فریاد اور التجائیں کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ اللہ سے سفارش کر کے ہماری مراد پوری کرا دیں گے۔

(2)  بتوں کا حج وطواف کرتے تھے ، ان کے سامنے عجز و نیاز سے پیش آتے تھے اورانہیں سجدہ کرتے تھے ۔

(3)  بتوں کے لیے نذرانے اور قربانیاں پیش کرتے  اور قربانی کے ان جانوروں کو بھی بتوں کے آستانوں پر لیجا کر ذبح کرتے تھے، اور کبھی کسی بھی جگہ ذبح کر لیتے تھے مگربتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے ۔ ذبح کی ان دونوں صورتوں کا ذکر اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کیا ہے ، ارشاد ہے

(وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ) المائدہ 3 یعنی وہ جانور بھی حرام ہیں جو آستانوں پر ذبح کیے گئے ہوں ۔دوسری جگہ ارشاد ہے :

(وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ وَاِنَّهٗ لَفِسْقٌ) انعام  121  ۔ یعنی اس جانور کا گوشت مت کھاؤ جس پر اللہ کا نام  نہ لیا گیا ہو،اور یہ کھانا گناہ ہے  ۔

(4)بتوں سے تقرب کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ مشرکین اپنی صوابدید کے مطابق اپنے کھانے پینے کی چیزوں اور اپنی کھیتی اور چو پائے کی پیدا وار کا ایک حصہ بتوں کے لیے خاص کر دیتے تھے ۔ اس سلسلے میں ان کا دلچسپ رواج یہ تھا کہ وہ اللہ کے لیے بھی اپنی کھیتی اور جانوروں کی پیداوار کا ایکہ خاص کرتے تھے پھر مختلف اسباب کی بنا پر اللہ کا حصہ تو بتوں کی طرف منتقل کر سکتے تھے لیکن بتوں کا حصہ کسی بھی حال میں اللہ کی طرف منتقل نہیں کر سکتے تھے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے (  وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَٰذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَٰذَا لِشُرَكَائِنَا ۖ فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَىٰ شُرَكَائِهِمْ ۗ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ   ) انعام 136

اللہ نے جو کھیتی اور چو پائے پیدا کئے ہیں اس کا ایک حصہ انہوں نے اللہ کے لیے مقرر کیا اورکہا یہ اللہ کے لیے ہے ۔ ان کے خیال میں ۔ اور یہ ہمارے شرکاء کے لیے ہے ، توجو ان کے شرکاء کے لیے ہوتا ہے  وہ تو اللہ تک نہیں پہنچتا (مگر) جو اللہ کے لیے ہوتا ہے وہ ان کے شہر کا تک پہنچ جاتا ہے، کتنا برا ہے وہ فیصلہ جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔

(5) بتوں کے تقریب کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ مشرکین کھیتی اور چوپائے کے ہر قسم کی نذریں مانتے تھے اللہ تعالی کا ارشاد ہے ۔

(وَقَالُوْا هٰذِهٖٓ اَنْعَامٌ وَّحَرْثٌ حِجْرٌ   ڰ لَّا يَطْعَمُهَآ اِلَّا مَنْ نَّشَاۗءُ بِزَعْمِهِمْ وَاَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُوْرُهَا وَاَنْعَامٌ لَّا يَذْكُرُوْنَ اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهَا افْتِرَاۗءً عَلَيْهِ  ) ان مشرکین نے کہا کہ یہ جو پائے اور کھیتیاں ممنوع ہیں ۔ انہیں وہی کھا سکتا ہے جیسے ہم چاہیں ۔ ان کے خیال میں ۔ اور یہ وہ چوپائے ہیں جن کی پیٹھ حرام کی گئی ہے( نہ ان پر سواری کی جاسکتی ہے تو سامان لادا جا سکتا ہے)  اور کچھ چوپائے ایسے ہیں جن  پر یہ لوگ اللہ پر افتراء کرتے ہوئے اللہ کا نہیں لیتے ۔ الانعام 138

(6) ان ہی جانوروں میں بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حامی تھے ۔  ابن اسحاق کہتے ہیں کہ بحیرہ ،سائبہ کی بچی کو کہا جاتا ہے ۔ اور سائبہ اس اونٹنی کو کہا جا تا ہے جس سے دس بار پے در پے مادہ بچے پیدا ہوں ، درمیان میں کوئی نر پیدا نہ ہو ۔ ایسی اونٹنی کو آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا  اس پر سواری نہیں کی جاتی تھی ، اس کے بال نہیں کاٹے جاتے تھے ۔ اور مہمان کے سوا کوئی اس کا دودھ نہیں پیتا تھا ۔ اس کے بعد یہ اونٹنی جو مادہ بچہ جنتی اس کا  کان چیر دیا جاتا  اور اسے بھی اس کی ماں کے ساتھ آزاد چھوڑ دیا جاتا ۔ اس پر سواری نہ کی جا تی ۔ اس کا بال کاٹا جاتا ۔ اور مہمان کے سوا کوئی اس کا دودھ نہ پیتا ، یہی بحیرہ ہے اور اس کی ماں سائبہ ہے ۔

(وصیلہ)  اس بکری کو کہا جاتا تھا جو پانچ دفعہ پے در پے دو  دو مادہ بچے جنتی (یعنی پانچ بار میں دس مادہ بچے پیدا ہوتے)  درمیان میں کوئی نر پیدا نہ ہوتا ۔ اس بکری کو اس لیے وصیلہ کہا جاتا تھا کہ وہ سارے مادہ بچوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتی تھی ۔ اس کے بعد اس بکری سے جو بچے پیدا ہوتے انہیں صرف مرد کھا سکتے تھے عورتیں نہیں کھا سکتی تھیں ۔ البتہ اگر کوئی بچہ مردہ پیدا ہوتا  تو اس کو مرد عورت سبھی کھا سکتے تھے ۔

(حامی) اس نر اونٹ کو کہتے تھے جس کی جفتی سے پے درپے دس مادہ بچے پیدا ہوتے ، درمیان میں کوئی نر  نہ پیدا ہوتا ۔ ایسے اونٹ کی پیٹھ محفوظ کر دی جاتی تھی ۔ نہ اس پر سواری کی جاتی تھی ، نہ اس کا بال کاٹا جاتا تھا ۔ بلکہ اسے اونٹوں کے ریوڑ میں جفتی کے لیے آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا ۔ اور اس کے سوا اس سے کوئی دوسرا فائدہ نہ اٹھایا جاتا تھا ۔  دور جاہلیت کی بت پرستی کے ان طریقوں کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا ۔

(مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِيْرَةٍ وَّلَا سَاۗىِٕبَةٍ وَّلَا وَصِيْلَةٍ وَّلَا حَامٍ ۙ وَّلٰكِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ ۭ وَاَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ ) اللہ نے کوئی بحیرہ ، نہ کوئی سائبہ نہ کوئی وصیلہ اور نہ کوئی حامی  بنایا ہے، لیکن جن لوگوں نے کفر کیا وہ اللہ یہ جھوٹ گھڑتے ہیں اور ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے ۔  المائدہ  103

 ایک دوسری جگہ فرمایا ۔ (وَقَالُوْا مَا فِيْ بُطُوْنِ هٰذِهِ الْاَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُوْرِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلٰٓي اَزْوَاجِنَا   ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مَّيْتَةً فَهُمْ فِيْهِ شُرَكَاۗءُ  ) ان مشرکین نے کہا کہ ان چوپایوں کے پیٹ میں جو کچھ ہے وہ خالص ہمارے مردوں کے لئے ہے   اور ہماری عورتوں پر حرام ہے ۔ البتہ اگر وہ مردہ ہو تو اس میں مرد عورت سب شریک ہیں . الانعام 139

 چوپایوں کی مذکورہ اقسام یعنی بحیرہ ، سائیہ وغیرہ کے کچھ دوسرے مطالب بھی بیان کئے گئے ہیں(سیرت ابن ہشام ۹۰،8۹ / ۱)  جو ابن اسحاق کی مذکورہ تفسیر سے قدرے مختلف ہیں ۔ حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ یہ جانور ان کے طاغوتوں کے لیے تھے(صحیح بخاری 1/499)

 صحیح بخاری میں مرفو عا مروی ہے کہ عمرو بن لحئ  پہلا شخص ہے جس نے بتوں کے نام پر جانور چوڑے ۔ (بخاری 1/499)

(7)عرب اپنے بتوں کے ساتھ میں سب کچھ اس عقیدے کے ساتھ کرتے تھے کہ یہ بت انہیں اللہ کے قریب کر دیں گے اور اللہ کے حضور ان کی سفارش کر دیں گے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں بتایا گیا ہے کہ مشرکین کہتے تھے ۔( مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى) ہم ان کی عبادت محض اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں۔ 

دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے ۔

(وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ وَيَقُوْلُوْنَ هٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَاللّٰهِ ۭ) یہ مشرکین اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو انہیں نہ نفع پہنچا سکیں نہ نقصان،  اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں ۔یونس 18

(8) مشرکین عرب( اَزْلَام) یعنی فال کے تیر بھی استعمال کرتے تھے ۔( اَزْلَام) زلم  کی جمع ہے ، اور زَلَم اس تیر کو کہتے ہیں جس میں پر نہ لگے ہوں ) فال گیری کے لیے استعمال ہونے والے یہ تیر تین قسم کے ہوتے تھے ۔ ایک وہ جن پر صرف ہاں یا نہیں لکھا ہوتا تھا ۔ اس قسم کے تیرسفر اور نکاح وغیرہ جیسے کاموں کے لیے استعمال کئے جاتے تھے ۔  اگر فال میں ہاں نکلتاتو مطلوبہ کام کر  ڈالا جاتا، اگر نہیں نکلتا تو سال بھر کے لیے ملتوی کر دیا جاتا  اور آئندہ پھر فال نکالی جاتی ۔ فال گیری کے تیروں کی دوسری قسم وہ تھی جن پر پانی اور دِیَتْ وغیرہ درج ہوتے تھے، اور تیسری قسم وہ تھی جس پر یہ درج ہوتا تھا ،کہ تم میں سے ہے ، یا تمہارے علاوہ سے ہے، یا مطلق ہے ۔  ان تیروں کا مصرف یہ تھا کہ جب کسی کے نسب میں شبہہ ہوتا تو اسے ایک سو اونٹوں سمیت ہبل کے پاس لے جاتے ۔  اونٹوں کو تیر والے مہنت کے حوالے کرتے  اور وہ تمام تیروں کو ایک ساتھ ملاکر گھماتا جھنجھوڑتا ، پھر ایک تیر نکالتا ۔  اب اگر یہ نکلتا کہ تم میں سے ہے،  تو وہ ان کے قبیلے کا ایک معزز فرد قرار پاتا  اور اگر یہ برآمد ہوتا کہ تمہارے غیر سے ہے ، تو حلیف  قرار پاتا،  اور اگر یہ نکلتا کہ ملحق ہے تو ان کے اندر اپنی حیثیت پر برقرار رہتا ، نہ قبیلے کا  فرد مانا جاتا ۔(محاضرات خضری 1/56- ابن ہشام1-102-103) ۔ اسی سے ملتاجلتا ایک روا ج مشرکین میں جوا کھیلنے اور جوئے کے تیر استعمال کرنے کا تھا ۔ اسی تیر کی نشاندہی پر وہ جوئے  کا اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت بانٹتے تھے ۔ جس کا طریقہ یہ تھا کہ جوا کھیلنے والے ایک اونٹ ذبح کر کے اسے دس یا اٹھائیس حصوں  پرتقسیم کرتے ۔ پھرتیروں سے قرعہ اندازی کرتے، کسی تیر پر جیت کا نشان بنا ہوتا  اور کوئی تیر بے نشان ہوتا ،جس کے نام پر جیت کے نشان والا تیر نکلتا وہ تو کامیاب ماناجاتا اور اپنا حصہ لیتا، اور جس کے نام پر بے نشان تیر نکلتا اسے قیمت دینی پڑتی۔

(9) مشرکین عرب کاہنوں ، عرّافوں اور نجومیوں کی خبروں پر بھی ایمان رکھتے تھے ۔ کا ہن اسے کہتے ہیں جو آنے والے واقعات کی پیش گوئی کرے اور راز ہائے سربستہ سے واقفیت کا دعویدا ہو ، بعض کاہنوں کا یہ بھی دعوی تھا کہ ایک جن ان کے تابع ہے جو انہیں خبریں پہنچاتا رہتا ہے ۔ اور بعض کا ہن کہتے تھے کہ انہیں ایسا فہم عطا کیا گیا ہے جس کے ذریعے وہ غیب کا پتہ لگا لیتے ہیں ۔ بعض اس بات کے مدعی تھے کہ جو آدمی ان سے کوئی بات پوچھنے آتا ہے اسکے قول فعل سے یا اس کی حالت سے کچھ مقدمات اور اسباب کے ذریعے وہ جائے واردات کا پتا لگا لیتے ہیں ۔ اس قسم کے آدمی کو عرّاف  کہا جا تا تھا ، مثلا وہ شخص جو چوری کی مال  چوری کہ جگہ  اور گمشدہ جانور وغیرہ کا پتا ٹھکانا بتاتا ۔

نجومی  اسے کہتے ہیں جو تاروں پر غورکر کے اور ان کی رفتار واوقات کا حساب لگا کر پتہ لگاتا ہےکہ دنیا میں آئندہ کیا حالات و واقعات پیش آئیں گے ۔  (مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابیح ۲/۲ ، ۳ طبع لکھنو)

ان نجومیوں کی خبروں کو ماننا درحقیقت تاروں پر ایمان لانا ہے اور تاروں پر ایمان لانے کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ مشرکین عرب نَچَھتّرْوں پر ایمان رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم پر فلاں اور فلاں نچھتر سے بارش ہوئی ہے ۔( صحیح مسلم مع شرح نووی : کتاب الایمان ، باب بیان کفر من قال مطرنا بالتها / ۹۵ 62/653)

نَچَھتّرْ کسے کہتے ہیں ؟

جواب : ہندوؤں نے منطقۃ البروج کو بارہ خانوں کے علاوہ ستائیس حصوں میں بھی تقسیم کیا ہوا ہے اور ہر حصے کا کوئی نام رکھا ہے یہ نچھتر کہلاتے ہیں، چاند کے راستے میں پڑنے والے تاروں کا مجموعہ یا گچھا، نجومیوں کے مطابق نچھتر کے خواص آثار اور علامات جداگانہ مقرر ہیں جس کے بموجب ہر کام سرانجام دینے کے لیے نیک و بد ساعتیں شمار کی جاتی ہیں اور پھر انہی کے وسیلے سے غیب گوئی اور پشین گوئی کی جاتی ہے ۔

(10) مشرکین میں بدشگونی کا بھی رواج تھا ۔ اسے عربی میں طِیِرَۃَ کہتے ہیں ۔ اس کی صورت یہ تھی کہ مشرکین کی چڑیا  یا ہرن کے پاس جاکر اسے بھگاتے تھے ۔ پھر گر وہ داہنے جانب بھاگتا تو اسے اچھائی اور کامیابی کی علامت سمجھ کر اپنا کام کر گذرتے اور اگر بائیں جانب بھاگتا تو اسے نحوست کی علامت سمجھ کر اپنے کام سے باز رہتے ۔ اسی طرح اگر کوئی چڑیا یا جانور  راستہ کاٹ دیا تو اسے بھی منحوس  سمجھتے ۔

اسی سے ملتی جلتی ایک حرکت یہ بھی تھی کہ مشرکین ، خرگوش کے ٹخنے کی ہڈی لٹکاتے تھے، ان کا عقیدہ تھا کہ جن خرگوش سے بہت ڈرتا ہے اس لئے جنوں سے محفوظ رہنے کے لئے خرگوش کی ہڈی بطور تعویذ کے بچوں کے گلے میں ڈالتے تھے ۔  اور مشرکین بعض دنوں مہینوں ، جانوروں ، گھروں اور عورتوں کو منحوس سمجھتے تھے ۔ بیماریوں کی چھوت کے قائل تھے اور روح کے الو بن جانے کا عقیدہ رکھتے تھے ۔ یعنی ان کا عقیدہ تھا کہ جب کہ مقتول کا بدلہ نہ لیا جائے ، اس کو سکون نہیں ملتا اور اس کی روح الو  بن کر بیابانوں میں گردش کر تی رہتی ہے  اور پیاس ، پیاس,یا مجھے پلاؤ مجھے پلاؤ کی صدا لگاتی رہتی ہے ۔ جب اس کا بدلہ لیا جاتا ہے تو اسے راحت اور سکون مل جاتا ہے ۔(صحیح بخاری 2/851،857 مع شروح) ۔

مشرکین کی عقائد آپ نے اوپر ملاحظہ کر لیے،اس کے باوجود ان میں کچھ نا کچھ دین ابراہیمی کی باقیات موجود بھی تھے ، مثلا وہ حج  و عمرہ  کرتے تھے ، اور حج کے دوران وہ عرفات و مزدلفہ میں ٹھہرتے  تھے ، اور ہدی کے جانوروں کی قربانی بھی کرتے تھے ۔البتہ مشرکین نے دین ابراہیم علیہ السلام میں بہت خرافات بھی شامل کی ہوئی تھیں ،وہ کہتے تھے کہ ہم اولاد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں  لہذا ہمارا کوئی ہم رتبہ نہیں، اور نہ کسی کے حقوق ہمارے مساوی ہیں( اور اسی بنا پر وہ اپنا نام حمس (بہادر ، گرم جوش) رکھتے تھے ۔اورہمارا یہ شان نہیں کہ ہم حدود حرم سے باہر نکلیں ، اسی بنا پر وہ حج کے دوران عرفات نہیں جاتے تھے اور نہ وہاں افاضہ کرتے تھے بلکہ مزدلفہ ہی میں ٹھر کر وہیں سے افاضہ کر لیتے تھے ، اللہ تعالی نے ان کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا ،    

ثُمَّ اَفِيْضُوْا مِنْ حَيْثُ اَفَاضَ النَّاسُ۔ البقرہ 199

یعنی تم لوگ بھی وہیں سے افاضہ کرو جہاں سے سارے لوگ افاضہ کرتے ہیں۔ (ابن ہشام 1/199 ، بخاری 1/226 بحوالہ  الرحیق المختوم ) اس کے علاوہ انکی بہت ساری خرافات تھیں جو کتب میں موجود ہیں ، جس میں بیت اللہ کا ننگا طواف اور طواف کے بعد گھر کے اندار دروازے سے داخل نہ ہوتے تھے  ، بعض عرب جانورں کے تقدس کے اس حد تک قائل تھے کہ ان کے مجسمے بنا کر انہیں پوجتے تھے ۔ (التاریخ السلامی العام 143)۔

مؤرخ ابن کلبی کا کہنا ہے ، مکہ کے ہر گھر میں ایک بت تھا جس کی لوگ عبادت کرتے تھے ، جب کوئی سفر پر جاتا تو بت کو چھو کر نکلتا ، واپس آتا تو سب سے پہلے بت کو چھوتا ۔ (الاصنام ، ابن کلبی ، ص ۳۳  بحوالہ تایخ امت مسلمہ 128/1) ۔  وغیرہ ۔

عربوں کی اخلاقی حالت

جہاں تک عربوں کی اخلاقی حالت کا تعلق ہے وہ بعض فطری اوصاف برقرار رہنے کے باوجود بہت بگڑ چکی تھی ۔ بات بات پر لڑ نا جھگڑنا اور تلوار میں سونت کر ایک دوسرے پر پل پڑنا ، ان کی عادت تھی ۔ ذرا سے اختلاف پر بڑی بڑی جنگیں شروع ہو جا تیں ، جونسل درنسل چلتی رہتیں ۔ شراب نوشی اتنی عام تھی کہ ہرگھر مے کدہ معلوم ہوتا تھا ، جو ے کی لت ایسی پڑی تھی کہ لوگ اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتے اور اسے فخر کا باعث قرار دیتے ۔ چوری ، ڈا کا عام تھا ۔ بعض قبیلوں کا مستقل پیشہ لوٹ مارتھا ۔شرم وحیا اس طرح رخصت ہوئی تھی کہ لوگ سر عام عورتوں سے آنکھیں لڑاتے ، محفلوں میں اپنی محبوباؤں کا ذکر کرتے اور ان کی یاد میں اشعارسناتے پھرتے ۔ ان کے ہاں نکاح کی اہمیت ضرور تھی مگر زنا بھی کوئی بری شے نہ  تھی ۔ پیشہ ورعصمت فروش عورتیں آبادیوں میں رہتیں اور ان کے گھر مخصوص جھنڈوں کی وجہ سے دور سے پہچانے جاتے تھے ۔ اس معاشرے میں عورت کی کوئی قدرو قیمت نہیں تھی ۔ ایک ایک آدمی بھیڑ بکریوں کی طرح جتنی عورتیں چاہتا  اپنے پاس رکھتا ، عورتیں میراث میں تقسیم ہو کر ایک سے دوسرے کی ملکیت میں چلی جاتی تھیں ۔ لوگ اپنے ہاں لڑکا پیدا ہونے پر فخر کرتے اور لڑکیوں کی پیدائش پر منہ چھپاتے پھرتے ۔ بہت سے لوگ لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیتے  تا کہ قبیلے میں ان کی رسوائی نہ ہو ۔ عربوں کی اس حالت کی جامع تصویر حضرت جعفر بن ابی طالب  نے نجاشی کے دربار میں یوں کھینچی تھی ، ہم ایک جاہلیت والی قوم تھے ، بتوں کی عبادت کرتے تھے ، مردار کھاتے تھے ، ہرقسم کی بے حیائیوں اور گناہوں میں آلودہ تھے ، ہم میں سے جو طاقتور ہوتا تھا وہ کمزور کو چیر پھاڑ دیتا تھا ۔ ( سیرۃ ابن ہشام 1/336  بحوالہ    تاریخ امت مسلمہ  1/129)  

اہل عرب کی دینی اور اخلاقی حالت

  اہل عرب کی دینی اور اخلاقی حالت   چھ سو برس قبل از مسیح تک اہل عرب بت پرستی کی لعنت سے پاک اور دین ابراہیمی کے پیروکار تھے مگر رفتہ رفتہ ج...