Oct 20, 2022

اہل عرب کی دینی اور اخلاقی حالت

 

اہل عرب کی دینی اور اخلاقی حالت 

چھ سو برس قبل از مسیح تک اہل عرب بت پرستی کی لعنت سے پاک اور دین ابراہیمی کے پیروکار تھے مگر رفتہ رفتہ جزیرۃ  العرب سے متصل بت پرست اقوام کے اثرات ان میں سرایت کر نے لگے ۔ وحی کی رہنمائی سے محرومی اور عمرو بن لحئ جیسے کج فکر لوگوں کی سر براہی نے نہ صرف قریش بلکہ جزیرۃ العرب کے تمام قبائل کو دین ابراہیمی سے بہت دور پھینکا اور دیکھتے ہی دیکھے بتوں کی عبادت پورے عرب میں عام ہوگئی ۔ پتھر کے جسموں کو حاجت روا  اور مشکل کشا جانے لگا ۔ لوگوں کا یہ عقیدہ بن گیا کہ ان مجسموں میں ایسی ارواح ہیں جو نفع وضرر کی مالک ہیں اور امور کا ئنات کے مختلف شعبوں پر قدرت رکھتی ہیں ۔ یہ بھی کہا جا تا تھا کہ یہ معبود اللہ کے قرب کا وسیلہ اور اس کی بارگاہ میں سفارشی ہیں، اللہ تعالی نے انہیں دنیا کے اختیارات عطا کر دیے ہیں ۔مشرکین کا خیال تھا کہ خالق کائنات تو اللہ ہے مگر اب وہ فارغ ہے اور اس کی نیابت میں دوسرے معبود تمام امور کو چلا رہے ہیں جن میں سے کوئی فتح و شکست کا مالک ہے ، کوئی زندگی اور موت کا کوئی روزی دیتا ہے اور کوئی صحت کوئی بیماریاں دور کرتا ہے اور کوئی قحط سالی ۔ حرم کے تبرکات کے ساتھ حد سے زیادہ عقیدت بھی بدعقیدگی کا سبب بنی ۔ بعض عرب قبائل مکہ سے واپسی پریہاں کے پتھر اٹھا کر لے جاتے ، کعبہ کی طرح ان کا طواف کر تے ، بعد میں ان پتھروں کی با قاعدہ پو جا ہونے لگتی (سيرة ابن هشام  ۱ / ۷۷)

 عرب میں قسمہاقسم کے بت تھے ۔ بعض بڑے بھاری بھرکم اور اپنی جگہ گڑے ہوۓ تھے ۔ مکہ کے اکثر مشہور بت ایسے ہی تھے ، جبکہ ایسے ہلکے پھلکے مجھے بھی تھے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیے جا سکتے تھے۔عرب ان بتوں کو اصنام کہتے تھے، جو (صنم ) کی جمع ہے ۔ کہا جا تا ہے کہ اس کی اصل صلم ( Solm ) ہے جو آرامی زبان کا لفظ ہے ۔ عربی میں آ کر یہ لفظ (صنم ) بن گیا

بتوں کے پجاریوں کو ’ ’ کا ہن ‘ کہا جاتا تھا اور انہیں اللہ کے تقرب اور اس سے تعلق کا واسطہ مانا جاتا تھا ۔ قریش سمیت تمام عرب قبائل کا ہنوں کے پیرو کار تھے ۔ وہ کاہنوں ، پجاریوں اور بت خانے کے خصوصی خادموں کو ہمراہ لیے بغیر کبھی جنگ کے لیے نہیں نکلتے تھے ۔ یہی کا ہن لشکر کے لیے نیک فالی یا بد فالی کے اشارے اخذ کرتے تھے ۔ اہم  فیصلوں میں ان کی راۓ معتبر مانی جاتی تھی ۔ ان کا ہنوں میں قبیلہ کلب کا زہیر بن حباب اور قبیلہ بنوعبس کا زہیر بن د پر مشہور ہیں ۔ (التاريخ الاسلامي العام ، ص ۱۲۸ ، ۱2۹)

منا ۃ ۔ وہ پہلا بت تھا جس کی عرب میں پرستش کی گئی ، اسے قسمت کا مالک مانا جاتا تھا ۔ اسے بنوخزاعہ کا رئیس عمر و بن نجی شام سے لایا تھا ۔ قریش کے علاوہ بنوہذیل اور یثرب میں آباد اؤس اور خزرج بھی اس کے خاص پجاری تھے ۔( التاريخ الاسلامي العام ، ص143)

( ہُبَلْ) قریش کا سب سے بڑا بت تھا جسے عمر و بن لحئ نے کعبہ میں نصب کیا تھا ۔ یہ سرخ عقیق سے تراشا ہوا انسانی شکل کا مجسمہ تھا ۔ اس پر سواونٹوں کی بھینٹ چڑھائی جاتی تھی ۔ کعبہ کے طواف کے بعد لوگ اس کے پاس سرمنڈواتے تھے ، اس کے چڑھاووں کا مستقل خزانہ تھا ، جس کے لیے ایک نگراں مقرر تھا ۔ (اخبار مكة لابي الوليدالازرقی : ۱۱۷/۱ تا ۱۱۹ ط دار الاندلس)

 دوسرا مشہور بت(لات ) تھا جو طائف کے بت خانے میں نصب تھا ۔ یہ ایک سفید چوکور مجسمہ تھا ۔ عرب اس کے نام کی قسمیں کھایا کرتے ۔  (الاصنام ، ابن کلبی ، ص ۵ ، قلمی نسخه)اسے بنوثقیف ( جو طائف اور اس کے گردونواح میں آباد تھے ) کے ایک سخی انسان کے نام پر بنایا گیا تھا جو حاجیوں کوستو گھی میں تر کر کے دیتا تھا ۔ اس کی موت کے بعد عمر و بن لحئ کے بہکاوے میں آ کر طائف کے لوگوں نے اس کا بت بناڈالا ۔( التاريخ الاسلامي العام ، ص ۱۵۴ ، ۱۵۵)

اہل عرب درختوں کی عبادت بھی کرتے تھے ، جیسے عزی نامی مشہور مؤنث بت بنو غطفان کے ایک ببول کے درخت کے نام پر بنایا گیا تھا ، جسے دیوی کی حیثیت دی گئی تھی ۔ قریش کے لوگ’’عبدالعز ی ‘ ‘ نام بڑے فخر سے رکھا کرتے تھے ۔ غزی کی الگ قربان گاہ تھی جہاں جانور قربان کیے جاتے تھے ۔ ( اخبار مكة ، الازرقى : ۱۲۶/۱)

ذات انواط :- بھی قریش کا مشہور مقدس درخت تھا جس کی عبادت کے لیے ایک دن کا اعتکاف کیا جا تا تھا ۔( اخبار مکہ الازرقی 1/ 129،130)

 جنگ کے دوران ہبل ، لات اور غزی کے نعرے لگا کر قوم کا حوصلہ بڑھایا جا تا تھا ۔ بت پرستی کی ریل پیل کا یہ عالم تھا کہ تین سو ساٹھ بت کعبہ کے صحن میں تھے ، جن میں اساف اور نائلہ نامی بہت بڑے مشہور تھے ، لوگ طواف کا آغاز اساف سے کرتے اور اختتام نائلہ پر کرتے ۔ ان میں سے پہلا بت مذکر تھا اور دوسرا مؤنث ۔ ان کے علاوہ  دومتہ الجندل میں’’و د ‘ ‘ کی  پرستش ہوتی تھی جس کی نگرانی قریش کے پاس تھی ۔ ’ ’ سواع ‘ ‘ بنو ہذیل کا بت تھا۔اہل جرش کے ہاں’یغوث ‘ ‘ نامی بت کی پوجا ہوتی تھی جوشیر کی شکل کا تھا ۔ اہل خیوان نے’’یعوق ‘ ‘ کی عبادت اختیار کر رکھی تھی جو گھوڑے کی صورت جیسا تھا ، یمن کا قبیلہ حمیر’نسر ‘ ‘ کا پجاری تھا جو گد ھ کا مجسمہ تھا ، یہ پانچوں نام ( ود ، سواع ، یعوث ، یعوق اورنسر ) اصل میں حضرت نوح علیہ السلام  کی قوم کے بتوں کے تھے جو ہزاروں سال قبل بابل ( عراق ) میں غرق ہو چکی تھی مگر ایک زمانے کے بعد بت پرستوں نے انہی ناموں کوئی شکلوں میں زندہ کر لیا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عرب بعض جانوروں کے تقدس کے اس حد تک قائل تھے کہ ان کے مجسمے بنا کر انہیں پوجتے تھے ۔ التاریخ الاسلامی العام 143، 144

 مؤرخ ابن کلبی کا کہنا ہے ’ ’ مکہ کے ہر گھر میں ایک بت تھا جس کی لوگ عبادت کرتے تھے ، جب کوئی سفر پر جاتا تو بت کو چھو کر نکلتا ، واپس آ تا تو سب سے پہلے بت کو چھوتا ۔ الاصنام ابن کلبی 33۔

 کچھ لوگ بت پرستی کی جگہ ستاروں کو مقدس ، نظام دنیا کا مختار اور دعا کے لیے قبلہ و کعبہ سمجھتے  تھے ۔ یہ صائبین کہلاتے تھے ۔ مکہ والوں کی زبان میں ہرایسے شخص کو بھی’’صابی ‘ ‘ کہا جا تا تھا جو بت پرستی کا منکر ہو ۔ تاریخ الفکر الدینی الجاہلی ابراہیم القیومی  279

الغرض مشرکین نے مسجد حرام کو بھی بتوں سے بھر دیا، چنانچہ جب مکہ فتح کیا گیا تو بیت اللہ کے ارد گرد تین سو ساٹھ بت تھے جنہیں خود رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے توڑا ۔ آپ ہرایک کو چھڑی سے ٹھوکر مارتے جاتے تھے اور وہ گرتا جاتا تھا ۔ پھر آپ ﷺ نے حکم دیا اور ان سارے بتوں کو مسجد حرام سے باہر نکال کر جلا دیا گیا ۔ (مختصر سيرة الرسول از شیخ محمد بن عبدالوہاب ص ۱۳ ، ۵۰، ۵۱، ۵2)

الغرض شرک اور بت پرستی اہل جاہلیت کے دین کا سب سے بڑا مظہر بن گئی تھی جنہیں گھمنڈ تھا کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر ہیں ۔

 پھر اہل جاہلیت کے یہاں بت پرستی کے کچھ خاص طریقے اور مراسم بھی رائج تھے جو زیادہ تر عمرو بن لحئ کی اختراع تھے ۔ اہل جاہلیت سمجھتے تھے کہ عمرو بن لحئ کی اختراعات دین ابراہیمی میں تبدیلی نہیں بلکہ بدعت حسنہ ہیں ۔ ذیل میں ہم اہل جاہلیت کے اندر رائیج بت پرستی کے چند اہم مراسم کا ذکر کر رہے ہیں۔

(1) دور جاہلیت کے مشرکین بتوں کے پاس مجاور بن کر بیٹھتے تھے ، ان کی پناہ ڈھونڈھتے تھے ۔ انہیں زور زور سے پکارتے تھے اور حاجت روائی مشکل کشائی کے لیے ان سے فریاد اور التجائیں کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ اللہ سے سفارش کر کے ہماری مراد پوری کرا دیں گے۔

(2)  بتوں کا حج وطواف کرتے تھے ، ان کے سامنے عجز و نیاز سے پیش آتے تھے اورانہیں سجدہ کرتے تھے ۔

(3)  بتوں کے لیے نذرانے اور قربانیاں پیش کرتے  اور قربانی کے ان جانوروں کو بھی بتوں کے آستانوں پر لیجا کر ذبح کرتے تھے، اور کبھی کسی بھی جگہ ذبح کر لیتے تھے مگربتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے ۔ ذبح کی ان دونوں صورتوں کا ذکر اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کیا ہے ، ارشاد ہے

(وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ) المائدہ 3 یعنی وہ جانور بھی حرام ہیں جو آستانوں پر ذبح کیے گئے ہوں ۔دوسری جگہ ارشاد ہے :

(وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ وَاِنَّهٗ لَفِسْقٌ) انعام  121  ۔ یعنی اس جانور کا گوشت مت کھاؤ جس پر اللہ کا نام  نہ لیا گیا ہو،اور یہ کھانا گناہ ہے  ۔

(4)بتوں سے تقرب کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ مشرکین اپنی صوابدید کے مطابق اپنے کھانے پینے کی چیزوں اور اپنی کھیتی اور چو پائے کی پیدا وار کا ایک حصہ بتوں کے لیے خاص کر دیتے تھے ۔ اس سلسلے میں ان کا دلچسپ رواج یہ تھا کہ وہ اللہ کے لیے بھی اپنی کھیتی اور جانوروں کی پیداوار کا ایکہ خاص کرتے تھے پھر مختلف اسباب کی بنا پر اللہ کا حصہ تو بتوں کی طرف منتقل کر سکتے تھے لیکن بتوں کا حصہ کسی بھی حال میں اللہ کی طرف منتقل نہیں کر سکتے تھے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے (  وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَٰذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَٰذَا لِشُرَكَائِنَا ۖ فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَىٰ شُرَكَائِهِمْ ۗ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ   ) انعام 136

اللہ نے جو کھیتی اور چو پائے پیدا کئے ہیں اس کا ایک حصہ انہوں نے اللہ کے لیے مقرر کیا اورکہا یہ اللہ کے لیے ہے ۔ ان کے خیال میں ۔ اور یہ ہمارے شرکاء کے لیے ہے ، توجو ان کے شرکاء کے لیے ہوتا ہے  وہ تو اللہ تک نہیں پہنچتا (مگر) جو اللہ کے لیے ہوتا ہے وہ ان کے شہر کا تک پہنچ جاتا ہے، کتنا برا ہے وہ فیصلہ جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔

(5) بتوں کے تقریب کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ مشرکین کھیتی اور چوپائے کے ہر قسم کی نذریں مانتے تھے اللہ تعالی کا ارشاد ہے ۔

(وَقَالُوْا هٰذِهٖٓ اَنْعَامٌ وَّحَرْثٌ حِجْرٌ   ڰ لَّا يَطْعَمُهَآ اِلَّا مَنْ نَّشَاۗءُ بِزَعْمِهِمْ وَاَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُوْرُهَا وَاَنْعَامٌ لَّا يَذْكُرُوْنَ اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهَا افْتِرَاۗءً عَلَيْهِ  ) ان مشرکین نے کہا کہ یہ جو پائے اور کھیتیاں ممنوع ہیں ۔ انہیں وہی کھا سکتا ہے جیسے ہم چاہیں ۔ ان کے خیال میں ۔ اور یہ وہ چوپائے ہیں جن کی پیٹھ حرام کی گئی ہے( نہ ان پر سواری کی جاسکتی ہے تو سامان لادا جا سکتا ہے)  اور کچھ چوپائے ایسے ہیں جن  پر یہ لوگ اللہ پر افتراء کرتے ہوئے اللہ کا نہیں لیتے ۔ الانعام 138

(6) ان ہی جانوروں میں بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حامی تھے ۔  ابن اسحاق کہتے ہیں کہ بحیرہ ،سائبہ کی بچی کو کہا جاتا ہے ۔ اور سائبہ اس اونٹنی کو کہا جا تا ہے جس سے دس بار پے در پے مادہ بچے پیدا ہوں ، درمیان میں کوئی نر پیدا نہ ہو ۔ ایسی اونٹنی کو آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا  اس پر سواری نہیں کی جاتی تھی ، اس کے بال نہیں کاٹے جاتے تھے ۔ اور مہمان کے سوا کوئی اس کا دودھ نہیں پیتا تھا ۔ اس کے بعد یہ اونٹنی جو مادہ بچہ جنتی اس کا  کان چیر دیا جاتا  اور اسے بھی اس کی ماں کے ساتھ آزاد چھوڑ دیا جاتا ۔ اس پر سواری نہ کی جا تی ۔ اس کا بال کاٹا جاتا ۔ اور مہمان کے سوا کوئی اس کا دودھ نہ پیتا ، یہی بحیرہ ہے اور اس کی ماں سائبہ ہے ۔

(وصیلہ)  اس بکری کو کہا جاتا تھا جو پانچ دفعہ پے در پے دو  دو مادہ بچے جنتی (یعنی پانچ بار میں دس مادہ بچے پیدا ہوتے)  درمیان میں کوئی نر پیدا نہ ہوتا ۔ اس بکری کو اس لیے وصیلہ کہا جاتا تھا کہ وہ سارے مادہ بچوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتی تھی ۔ اس کے بعد اس بکری سے جو بچے پیدا ہوتے انہیں صرف مرد کھا سکتے تھے عورتیں نہیں کھا سکتی تھیں ۔ البتہ اگر کوئی بچہ مردہ پیدا ہوتا  تو اس کو مرد عورت سبھی کھا سکتے تھے ۔

(حامی) اس نر اونٹ کو کہتے تھے جس کی جفتی سے پے درپے دس مادہ بچے پیدا ہوتے ، درمیان میں کوئی نر  نہ پیدا ہوتا ۔ ایسے اونٹ کی پیٹھ محفوظ کر دی جاتی تھی ۔ نہ اس پر سواری کی جاتی تھی ، نہ اس کا بال کاٹا جاتا تھا ۔ بلکہ اسے اونٹوں کے ریوڑ میں جفتی کے لیے آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا ۔ اور اس کے سوا اس سے کوئی دوسرا فائدہ نہ اٹھایا جاتا تھا ۔  دور جاہلیت کی بت پرستی کے ان طریقوں کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا ۔

(مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِيْرَةٍ وَّلَا سَاۗىِٕبَةٍ وَّلَا وَصِيْلَةٍ وَّلَا حَامٍ ۙ وَّلٰكِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ ۭ وَاَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ ) اللہ نے کوئی بحیرہ ، نہ کوئی سائبہ نہ کوئی وصیلہ اور نہ کوئی حامی  بنایا ہے، لیکن جن لوگوں نے کفر کیا وہ اللہ یہ جھوٹ گھڑتے ہیں اور ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے ۔  المائدہ  103

 ایک دوسری جگہ فرمایا ۔ (وَقَالُوْا مَا فِيْ بُطُوْنِ هٰذِهِ الْاَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُوْرِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلٰٓي اَزْوَاجِنَا   ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مَّيْتَةً فَهُمْ فِيْهِ شُرَكَاۗءُ  ) ان مشرکین نے کہا کہ ان چوپایوں کے پیٹ میں جو کچھ ہے وہ خالص ہمارے مردوں کے لئے ہے   اور ہماری عورتوں پر حرام ہے ۔ البتہ اگر وہ مردہ ہو تو اس میں مرد عورت سب شریک ہیں . الانعام 139

 چوپایوں کی مذکورہ اقسام یعنی بحیرہ ، سائیہ وغیرہ کے کچھ دوسرے مطالب بھی بیان کئے گئے ہیں(سیرت ابن ہشام ۹۰،8۹ / ۱)  جو ابن اسحاق کی مذکورہ تفسیر سے قدرے مختلف ہیں ۔ حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ یہ جانور ان کے طاغوتوں کے لیے تھے(صحیح بخاری 1/499)

 صحیح بخاری میں مرفو عا مروی ہے کہ عمرو بن لحئ  پہلا شخص ہے جس نے بتوں کے نام پر جانور چوڑے ۔ (بخاری 1/499)

(7)عرب اپنے بتوں کے ساتھ میں سب کچھ اس عقیدے کے ساتھ کرتے تھے کہ یہ بت انہیں اللہ کے قریب کر دیں گے اور اللہ کے حضور ان کی سفارش کر دیں گے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں بتایا گیا ہے کہ مشرکین کہتے تھے ۔( مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى) ہم ان کی عبادت محض اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں۔ 

دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے ۔

(وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ وَيَقُوْلُوْنَ هٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَاللّٰهِ ۭ) یہ مشرکین اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو انہیں نہ نفع پہنچا سکیں نہ نقصان،  اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں ۔یونس 18

(8) مشرکین عرب( اَزْلَام) یعنی فال کے تیر بھی استعمال کرتے تھے ۔( اَزْلَام) زلم  کی جمع ہے ، اور زَلَم اس تیر کو کہتے ہیں جس میں پر نہ لگے ہوں ) فال گیری کے لیے استعمال ہونے والے یہ تیر تین قسم کے ہوتے تھے ۔ ایک وہ جن پر صرف ہاں یا نہیں لکھا ہوتا تھا ۔ اس قسم کے تیرسفر اور نکاح وغیرہ جیسے کاموں کے لیے استعمال کئے جاتے تھے ۔  اگر فال میں ہاں نکلتاتو مطلوبہ کام کر  ڈالا جاتا، اگر نہیں نکلتا تو سال بھر کے لیے ملتوی کر دیا جاتا  اور آئندہ پھر فال نکالی جاتی ۔ فال گیری کے تیروں کی دوسری قسم وہ تھی جن پر پانی اور دِیَتْ وغیرہ درج ہوتے تھے، اور تیسری قسم وہ تھی جس پر یہ درج ہوتا تھا ،کہ تم میں سے ہے ، یا تمہارے علاوہ سے ہے، یا مطلق ہے ۔  ان تیروں کا مصرف یہ تھا کہ جب کسی کے نسب میں شبہہ ہوتا تو اسے ایک سو اونٹوں سمیت ہبل کے پاس لے جاتے ۔  اونٹوں کو تیر والے مہنت کے حوالے کرتے  اور وہ تمام تیروں کو ایک ساتھ ملاکر گھماتا جھنجھوڑتا ، پھر ایک تیر نکالتا ۔  اب اگر یہ نکلتا کہ تم میں سے ہے،  تو وہ ان کے قبیلے کا ایک معزز فرد قرار پاتا  اور اگر یہ برآمد ہوتا کہ تمہارے غیر سے ہے ، تو حلیف  قرار پاتا،  اور اگر یہ نکلتا کہ ملحق ہے تو ان کے اندر اپنی حیثیت پر برقرار رہتا ، نہ قبیلے کا  فرد مانا جاتا ۔(محاضرات خضری 1/56- ابن ہشام1-102-103) ۔ اسی سے ملتاجلتا ایک روا ج مشرکین میں جوا کھیلنے اور جوئے کے تیر استعمال کرنے کا تھا ۔ اسی تیر کی نشاندہی پر وہ جوئے  کا اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت بانٹتے تھے ۔ جس کا طریقہ یہ تھا کہ جوا کھیلنے والے ایک اونٹ ذبح کر کے اسے دس یا اٹھائیس حصوں  پرتقسیم کرتے ۔ پھرتیروں سے قرعہ اندازی کرتے، کسی تیر پر جیت کا نشان بنا ہوتا  اور کوئی تیر بے نشان ہوتا ،جس کے نام پر جیت کے نشان والا تیر نکلتا وہ تو کامیاب ماناجاتا اور اپنا حصہ لیتا، اور جس کے نام پر بے نشان تیر نکلتا اسے قیمت دینی پڑتی۔

(9) مشرکین عرب کاہنوں ، عرّافوں اور نجومیوں کی خبروں پر بھی ایمان رکھتے تھے ۔ کا ہن اسے کہتے ہیں جو آنے والے واقعات کی پیش گوئی کرے اور راز ہائے سربستہ سے واقفیت کا دعویدا ہو ، بعض کاہنوں کا یہ بھی دعوی تھا کہ ایک جن ان کے تابع ہے جو انہیں خبریں پہنچاتا رہتا ہے ۔ اور بعض کا ہن کہتے تھے کہ انہیں ایسا فہم عطا کیا گیا ہے جس کے ذریعے وہ غیب کا پتہ لگا لیتے ہیں ۔ بعض اس بات کے مدعی تھے کہ جو آدمی ان سے کوئی بات پوچھنے آتا ہے اسکے قول فعل سے یا اس کی حالت سے کچھ مقدمات اور اسباب کے ذریعے وہ جائے واردات کا پتا لگا لیتے ہیں ۔ اس قسم کے آدمی کو عرّاف  کہا جا تا تھا ، مثلا وہ شخص جو چوری کی مال  چوری کہ جگہ  اور گمشدہ جانور وغیرہ کا پتا ٹھکانا بتاتا ۔

نجومی  اسے کہتے ہیں جو تاروں پر غورکر کے اور ان کی رفتار واوقات کا حساب لگا کر پتہ لگاتا ہےکہ دنیا میں آئندہ کیا حالات و واقعات پیش آئیں گے ۔  (مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابیح ۲/۲ ، ۳ طبع لکھنو)

ان نجومیوں کی خبروں کو ماننا درحقیقت تاروں پر ایمان لانا ہے اور تاروں پر ایمان لانے کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ مشرکین عرب نَچَھتّرْوں پر ایمان رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم پر فلاں اور فلاں نچھتر سے بارش ہوئی ہے ۔( صحیح مسلم مع شرح نووی : کتاب الایمان ، باب بیان کفر من قال مطرنا بالتها / ۹۵ 62/653)

نَچَھتّرْ کسے کہتے ہیں ؟

جواب : ہندوؤں نے منطقۃ البروج کو بارہ خانوں کے علاوہ ستائیس حصوں میں بھی تقسیم کیا ہوا ہے اور ہر حصے کا کوئی نام رکھا ہے یہ نچھتر کہلاتے ہیں، چاند کے راستے میں پڑنے والے تاروں کا مجموعہ یا گچھا، نجومیوں کے مطابق نچھتر کے خواص آثار اور علامات جداگانہ مقرر ہیں جس کے بموجب ہر کام سرانجام دینے کے لیے نیک و بد ساعتیں شمار کی جاتی ہیں اور پھر انہی کے وسیلے سے غیب گوئی اور پشین گوئی کی جاتی ہے ۔

(10) مشرکین میں بدشگونی کا بھی رواج تھا ۔ اسے عربی میں طِیِرَۃَ کہتے ہیں ۔ اس کی صورت یہ تھی کہ مشرکین کی چڑیا  یا ہرن کے پاس جاکر اسے بھگاتے تھے ۔ پھر گر وہ داہنے جانب بھاگتا تو اسے اچھائی اور کامیابی کی علامت سمجھ کر اپنا کام کر گذرتے اور اگر بائیں جانب بھاگتا تو اسے نحوست کی علامت سمجھ کر اپنے کام سے باز رہتے ۔ اسی طرح اگر کوئی چڑیا یا جانور  راستہ کاٹ دیا تو اسے بھی منحوس  سمجھتے ۔

اسی سے ملتی جلتی ایک حرکت یہ بھی تھی کہ مشرکین ، خرگوش کے ٹخنے کی ہڈی لٹکاتے تھے، ان کا عقیدہ تھا کہ جن خرگوش سے بہت ڈرتا ہے اس لئے جنوں سے محفوظ رہنے کے لئے خرگوش کی ہڈی بطور تعویذ کے بچوں کے گلے میں ڈالتے تھے ۔  اور مشرکین بعض دنوں مہینوں ، جانوروں ، گھروں اور عورتوں کو منحوس سمجھتے تھے ۔ بیماریوں کی چھوت کے قائل تھے اور روح کے الو بن جانے کا عقیدہ رکھتے تھے ۔ یعنی ان کا عقیدہ تھا کہ جب کہ مقتول کا بدلہ نہ لیا جائے ، اس کو سکون نہیں ملتا اور اس کی روح الو  بن کر بیابانوں میں گردش کر تی رہتی ہے  اور پیاس ، پیاس,یا مجھے پلاؤ مجھے پلاؤ کی صدا لگاتی رہتی ہے ۔ جب اس کا بدلہ لیا جاتا ہے تو اسے راحت اور سکون مل جاتا ہے ۔(صحیح بخاری 2/851،857 مع شروح) ۔

مشرکین کی عقائد آپ نے اوپر ملاحظہ کر لیے،اس کے باوجود ان میں کچھ نا کچھ دین ابراہیمی کی باقیات موجود بھی تھے ، مثلا وہ حج  و عمرہ  کرتے تھے ، اور حج کے دوران وہ عرفات و مزدلفہ میں ٹھہرتے  تھے ، اور ہدی کے جانوروں کی قربانی بھی کرتے تھے ۔البتہ مشرکین نے دین ابراہیم علیہ السلام میں بہت خرافات بھی شامل کی ہوئی تھیں ،وہ کہتے تھے کہ ہم اولاد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں  لہذا ہمارا کوئی ہم رتبہ نہیں، اور نہ کسی کے حقوق ہمارے مساوی ہیں( اور اسی بنا پر وہ اپنا نام حمس (بہادر ، گرم جوش) رکھتے تھے ۔اورہمارا یہ شان نہیں کہ ہم حدود حرم سے باہر نکلیں ، اسی بنا پر وہ حج کے دوران عرفات نہیں جاتے تھے اور نہ وہاں افاضہ کرتے تھے بلکہ مزدلفہ ہی میں ٹھر کر وہیں سے افاضہ کر لیتے تھے ، اللہ تعالی نے ان کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا ،    

ثُمَّ اَفِيْضُوْا مِنْ حَيْثُ اَفَاضَ النَّاسُ۔ البقرہ 199

یعنی تم لوگ بھی وہیں سے افاضہ کرو جہاں سے سارے لوگ افاضہ کرتے ہیں۔ (ابن ہشام 1/199 ، بخاری 1/226 بحوالہ  الرحیق المختوم ) اس کے علاوہ انکی بہت ساری خرافات تھیں جو کتب میں موجود ہیں ، جس میں بیت اللہ کا ننگا طواف اور طواف کے بعد گھر کے اندار دروازے سے داخل نہ ہوتے تھے  ، بعض عرب جانورں کے تقدس کے اس حد تک قائل تھے کہ ان کے مجسمے بنا کر انہیں پوجتے تھے ۔ (التاریخ السلامی العام 143)۔

مؤرخ ابن کلبی کا کہنا ہے ، مکہ کے ہر گھر میں ایک بت تھا جس کی لوگ عبادت کرتے تھے ، جب کوئی سفر پر جاتا تو بت کو چھو کر نکلتا ، واپس آتا تو سب سے پہلے بت کو چھوتا ۔ (الاصنام ، ابن کلبی ، ص ۳۳  بحوالہ تایخ امت مسلمہ 128/1) ۔  وغیرہ ۔

عربوں کی اخلاقی حالت

جہاں تک عربوں کی اخلاقی حالت کا تعلق ہے وہ بعض فطری اوصاف برقرار رہنے کے باوجود بہت بگڑ چکی تھی ۔ بات بات پر لڑ نا جھگڑنا اور تلوار میں سونت کر ایک دوسرے پر پل پڑنا ، ان کی عادت تھی ۔ ذرا سے اختلاف پر بڑی بڑی جنگیں شروع ہو جا تیں ، جونسل درنسل چلتی رہتیں ۔ شراب نوشی اتنی عام تھی کہ ہرگھر مے کدہ معلوم ہوتا تھا ، جو ے کی لت ایسی پڑی تھی کہ لوگ اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتے اور اسے فخر کا باعث قرار دیتے ۔ چوری ، ڈا کا عام تھا ۔ بعض قبیلوں کا مستقل پیشہ لوٹ مارتھا ۔شرم وحیا اس طرح رخصت ہوئی تھی کہ لوگ سر عام عورتوں سے آنکھیں لڑاتے ، محفلوں میں اپنی محبوباؤں کا ذکر کرتے اور ان کی یاد میں اشعارسناتے پھرتے ۔ ان کے ہاں نکاح کی اہمیت ضرور تھی مگر زنا بھی کوئی بری شے نہ  تھی ۔ پیشہ ورعصمت فروش عورتیں آبادیوں میں رہتیں اور ان کے گھر مخصوص جھنڈوں کی وجہ سے دور سے پہچانے جاتے تھے ۔ اس معاشرے میں عورت کی کوئی قدرو قیمت نہیں تھی ۔ ایک ایک آدمی بھیڑ بکریوں کی طرح جتنی عورتیں چاہتا  اپنے پاس رکھتا ، عورتیں میراث میں تقسیم ہو کر ایک سے دوسرے کی ملکیت میں چلی جاتی تھیں ۔ لوگ اپنے ہاں لڑکا پیدا ہونے پر فخر کرتے اور لڑکیوں کی پیدائش پر منہ چھپاتے پھرتے ۔ بہت سے لوگ لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیتے  تا کہ قبیلے میں ان کی رسوائی نہ ہو ۔ عربوں کی اس حالت کی جامع تصویر حضرت جعفر بن ابی طالب  نے نجاشی کے دربار میں یوں کھینچی تھی ، ہم ایک جاہلیت والی قوم تھے ، بتوں کی عبادت کرتے تھے ، مردار کھاتے تھے ، ہرقسم کی بے حیائیوں اور گناہوں میں آلودہ تھے ، ہم میں سے جو طاقتور ہوتا تھا وہ کمزور کو چیر پھاڑ دیتا تھا ۔ ( سیرۃ ابن ہشام 1/336  بحوالہ    تاریخ امت مسلمہ  1/129)  

Oct 16, 2022

عرب کسے کہتے ہیں اور عرب قبائل

 

عرب کسے کہتے ہیں اور عرب قبائل

سیرت النبی ﷺ کو جاننے کے لئے یہ بات نہایت  ضروری ہے کہ یہ جان لیا جائے کہ عرب کسے کہتے ہیں اور بعثت سےپہلے اور بعد کے حالات کا تقابل جانا جائے، اس لئے اصل بحث سے پہلے عرب کا مطلب اور  اسلام سے قبل عرب کی اقوام اور ان کی عقائد پر گفتگو  جن کی طرف رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی ۔

عرب کو عرب کیوں کہتے ہیں

وجہ تسمیہ عرب: عرب کو "عرب" کیوں کہتے ہیں ؟ اس کے مختلف جوابات دیئے گئے ہیں ، "عرب" اعراب سے مشتق ہے جس کے معنی زبان آوری اور اظہار مافی الضمیر کے ہیں ، چونکہ عرب کی قوم نہایت زباں آور اور فصیح اللسان تھی اس لئے اس نے اپنا نام عرب رکھا ، اور اپنے سوا تمام دنیا کو اس نے عجم یعنی " بے زبان " کے نام سے پکارا، لیکن حقیقت میں یہ صرف نکتہ آفرینی اور دقّت رسی ہے ، دنیا میں ہر قوم اپنی زبان کی اسی طرح جوہری ہے جس طرح عرب ۔

علمائے انساب کہتے ہیں کہ اس ملک کا پہلا باشندہ یعرب بن قحطان ، جو یمنی عربوں کا پدر اعلی ہے ، اس لئے اس ملک کے باشندوں کو اور نیز اس ملک کو عرب کہنے لگے ، لیکن یہ بالکل خلاف قیاس اور معلومات تاریخی کے مخالف ہے ، نہ یعرب اس ملک کا پہلا باشندہ تھا اور نہ لفظ عرب کسی قاعدہ لسانی یمن تھا۔اس لئے سب سے پہلے خود یمن یعنی  جنوبی عرب کو عرب کہنا چاہیئے ، لیکن اس کے برخلاف "عرب " کا لفظ پہلے شمالی عرب کے لئے مستعمل ہوا ۔

اہل جغرافیہ کہتے ہیں اور بالکل صحیح کہتے ہیں کہ "عرب " کا پہلا نام " عربۃ " تھا جو ۔۔ بعد کو عموما " عرب " بولا جانے لگا ، اور اس کے بعد ملک کے نام سے خود قوم کا نام بھی قرار پاگیا چنانچہ شعرائے عرب کے اشعار سے بھی جو عرب کی تنہائی ڈکشنری ہے ، اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔

اسد بن جاحل کہتا ہے۔

وعربة ارض جدّ فی الشر اهلها  *****     کما جدّ فی شرب النقاخ ظماء

ابن منقذ ثوری کا شعر ہے ۔

لنا ابل لم یطمث الذُّل بینها  ***  بعربة ماواها بقرن فابطهاها

ولوا ن قومی طاوعتنی سراتة     امرتهم الامر الذی  کان اریحا

اسلام کے بعد بھی یہ نام باقی رہا ، ابو سفیان کلبی رسول اللہ ﷺ کی مدح میں کہتے ہیں۔

ابونا رسول الله و ابن خلیله      بعربة بوَّانا فنعم المرکب

ابوطالب بن عبد المطلب کی طرف جو قصیدہ منسوب ہے ،(گو صحیح نہیں )اس کا ایک شعر ہے۔

وعربة دار لا یحل حرامها  ****    من الناس الا اللوذعی الحلاحل

(ان مذکورہ اشعار کی تفصیل لے لئے دیکھئے معجم البلدان ، یاقوت لفظ" عربۃ ")

اب دوسرا سوال یہ ہے کہ اس ملک کا نام " عربۃ " کیوں قرار پا یا ؟  اصل یہ ہے کہ تمام سامی زبانوں میں " عربۃ " صحرا اور بادیہ کا مفہوم رکھتا ہے ۔ عبرانی میں  "عربا" عرابۃ کے معنی بدویت کے ہیں اور اعراب اہل بادیہ اور صحرا نشینوں کے لئے اب تک مستعمل ہے ۔

چونکہ عرب کا ملک زیادہ تر ایک بیابان بے آب گیاہ ہے اور خصوصا وہ حصہ جو حجاز سے بادیۂ عرب و شام اور سینا تک پھیلا ہواہے ، اس لئے اس کا نام "عربا" قرار پایا ، اور پھر رفتہ رفتہ وہاں کے باشندوں کو " عرب " کہنے لگے ۔

قرآن مجید میں لفظ" عرب " ملک عرب کے لئے کہیں نہیں بولا گیا ہے ، حضرت اسمعیل ؑ کی سکونت کے ذکر میں "واد غیر ذی زرع" یعنی " وادی ناقابل کاشت " اس کو کہا گیا ہے اکثر لوگ اس نام  کو عرب کی حالت طبعی کا بیان سمجھتے ہیں ، لیکن اوپر جو حقیقی بیان ہے اس سے واضح ہے کہ یہ لفظ عرب کا بعینہ لفظی ترجمہ ہے ، چونکہ اس عہد میں اس غیر آباد ملک کا کوئی نام نہ تھا اس لئے خود لفظ " غیر آباد ملک " اس کانام پڑگیا ، توراۃ میں بھی اسمعیل ؑ  کا مسکن  " مدبار " بتایاگیا ہے ، جس کے معنی بیابان اور غیر آباد قطعہ کے ہیں اور جو بالکل عرب کا ترجمہ اور"واد غیر ذی زرع " کے مرادف ہے ۔

تورات میں لفظ " عربا" کے ایک خاص قطع زمین کے معنی میں متعدد بار آیا ہے ، لیکن یقینا اس وسعت کے ساتھ اطلاق نہیں ہواہے جس وسعت کے ساتھ اب یہ کیا جاتاہے ، لفظ " عربا" سے صرف و ہ قطعہ زمین مراد لیا گیا ہے جو حجاز سے شام و سینا تک وسیع ہے ۔ (استثنا ) عام ملک عرب کے لئے زیادہ تر مشرق اور مشرق کی زمین کا استعمال ہوا ہے ، اور کبھی جنوب کا ، کیونکہ عرب فلسطین کے مشرق و جنوب دونوں گوشوں میں ہے ۔ لفظ " عرب " سب سے پہلے 1000ق ،م میں حضرت سلیمان ؑ کے عہد میں سننے میں آتاہے اور پھر اس کے بعد عام طور سے اس کا استعمال عبرانی ، یونانی اور رومانی تاریخوں میں نظر آتاہے اسیریا کے کتبات  میں  800ق ،م  میں عرب کانام " عریبی " لیا گیا ہے ۔ اسلام سے پہلے ہی یہ لفظ پورے ملک کو جو یمن سے شام تک وسیع ہے محیط تھا ۔ عبارت بالا سے ظاہر ہوگا کہ عرب قدیم کے جغرافیہ کے تین ماخذ ہیں ، تورات ، یونان ، و رومان ، اور خود عرب ، اور ایک عجیب اتفاق یہ ہے کہ یہ تین مختلف ماخذتین مختلف زمانوں سے متعلق ہیں ، تورات کا بیان 2500 ق ، م  سے تقریبا 800ء یونان و رومان بیان 500م ، ق (ہیروڈوٹس ) اسے 200ء (بطلیموس ) تک ہے ۔ خود عربوں کے بیانات عرب کے مقامات کے متعلق جو بعہد اسلام مدون ہوئے چند مشہور قبائل کے مقامات سکونت کے سوا (مثلا احقاف  مسکن عاد ،  مدین ،مسکن ثمود ، یمامہ، مسکن طسم و جدیس حجاز مسکن جریم ، یمن مسکن قحطان )عہد مسیح ؑ سے بعد کے ہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ عرب تصنیف و تالیف آشنا نہ تھے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ "صاحب البیت ادری بمافیہ"۔ عرب کے شعراء کا عام مذاق یہ ہے کہ وہ قصائد میں محبوب کے دیار و مسکن او راپنے سفر کے مقامات و منازل کا تذکرہ  کیا کرتے ہیں ، علمائے اسلام نے ان ہی سے عرب کا جغرافیہ وصفی ترتیب  دیا ہے ۔

( تاریخ  ارض قرآن ، جلد اول ص 66-69،  علامہ سید سلیمان ندویؒ )

عرب اقوام و قبائل: عرب قبائل کے متعلق جان لیجئے کہ ، ملک عرب میں قدیم سے سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد آباد رہی ، مؤرّخین نے نسلی اعتبار سے عرب اقوام کی تین قسمیں قرار دی ہیں۔  

(1) عرب بائدہ:- یعنی وہ قدیم عرب قبائل اور قومیں جو بالکل ناپید ہوگئیں اور ان کے متعلق ضروری تفصیلات بھی دستیاب نہیں۔ مثلاً: عاد ، ثمود، طَسم ، جَدِیس ، عَمَالِقَہ ، امیم ، جرہم، حضور ، وبار، عبیل اور حضرموت وغیرہ۔ ، ان کا تمام جزیرہ نمائے عرب میں دور دور ہ رہا اوران کے بعض بادشاہوں نے مصر تک کو فتح کیا،اُن کے تفصیلی حالات تاریخوں میں نہیں ملتے؛ لیکن نجد واحقاف وحضر موت ویمن وغیرہ میں ان لوگوں کی بعض عمارات اورآثارِ قدیمہ،بعض پتھروں کے ستون، بعض زیورات، بعض سنگ تراشیاں ایسی موجود ملتی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنے زمانہ میں یہ لوگ خوب طاقتور اورصاحبِ رعب وجلال ہوں گے،ان قبائل میں عاد بہت مشہور قبیلہ ہے، علامہ زمخشری نے اسی شداد ابنِ عاد کی نسبت لکھا ہے کہ اُس نے صحرائے عدن میں مدینہ ارم بنوایا تھا، مگر اس مدینہ ارم یا باغِ ارم کا کوئی نشان کہیں نہیں پایا جاتا،قرآن کریم میں بھی ارم کا ذکر آیا ہے،لیکن اس سے مراد قبیلہ ارم ہے نہ مدینہ ارم یا باغِ ارم،قبیلہ ارم غالباً اسی قبیلہ عاد کا دوسرا نام تھا یا قبیلہ عاد کی ایک شاخ تھا، یا قبیلہ عاد قبیلہ ارم کی ایک شاخ تھا،خدا تعالیٰ فرماتا ہے :" أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ،إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ،الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ"(کیا تم نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ تمہارے پروردگارنے عادِ ارم کے لوگوں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جو ایسے بڑے قد آور تھے کہ قوتِ جسمانی کے اعتبار سے دنیا کے شہروں میں کوئی مخلوق ان جیسی پیدا نہیں ہوئی.

(2) عرب عاربہ:- وہ عرب قبائل جو یعرب بن یشجب بن قحطان کی نسل سے ہیں۔ انہیں قحطانی عرب کہا جاتا ہے۔قحطان سے پیشتر نوح علیہ السلام تک قحطان کے بزرگوں میں کسی کی زبان عربی نہ تھی،قحطان کی اولاد نے عربی زبان استعمال کی اوریہ زبان عرب بائدہ سے حاصل کی، ، عرب عاربہ یا قحطانی قبائل میں بعض بڑے بڑے بادشاہ گذرے اورتمام جزیرہ نمائے عرب پر یہ لوگ متولی رہے، یعرب بن قحطان نے عرب بائدہ کی رہی سہی تمام نسلوں اورنشانیوں کا خاتمہ کردیا تھا-قحطانی قبائل کا اصلی مقام اور قدیمی وطن یمن سمجھا جاتا ہے، انہوں نے ملک یمن کی آبادی وسرسبزی میں خاص طور پر کوششیں کیں،انہیں میں ؛بلکہ بلقیس تھی جو سلیمان علیہ السلام کی معاصرہ تھی۔ قحطانی قبائل کے خاندان اور قبیلے مختلف شاخوں میں پھوٹے پھلے اور بڑھے، ان میں سے دو قبیلوں نے بڑی شہرت حاصل کی ۔

(الف) (  حمیر  ) جس کی مشہور شاخیں زید الجمہور ،قضاعہ اورسکاسک ہیں ۔

(ب ) (کہلان ) جس کی مشہور شاخیں ہمدان ، انمار ،طی، مذحج ،کندہ، لحم،جذام،ازداوس، خزرج اور اولاد جفنہ ہیں ،جنہوں نے آگے چل کر ملک شام کے اطراف میں بادشاہت قائم کی اور آل غستان کے نام سے مشہور ہوئے ۔  عام کہلانی قبائل نے بعد میں یمن چھوڑ دیا اور جزیرۃ العرب کے مختلف اطرات میں پھیل گئے ۔ ان کے عمومی ترک وطن کا واقعہ سیل عرم سے کسی قدر پہلے اس وقت پیش آیا جب رومیوں نے مصر و شام پر قبضہ کر کے اہل یمن کی تجارت کے بحری راستے پر اپنا تسلط جمالیا ،اور بری شاہراہ کی سہولیات غارت کر کے اپنا دباؤ  اس قدر بڑھا دیا کہ کہلانیوں کی تجارت تباہ ہو کر رہ گئی ۔ کچھ عجب نہیں کہ کہلانی اور حمیری خاندانوں میں چشمک بھی رہی ہو اور یہ بھی کہلانیوں کے ترک وطن کا ایک موثرسبب بنی ہو ۔ اس کا اشارہ اس سے بھی ملتا ہے کہ کہلانی قبائل نے تو ترک وطن کیا ۔ لیکن حمیری قبائل اپنی جگہ برقرار ہے ۔

 جن کہلانی قبائل نے ترک وطن کیا ان کی چارقسمیں کی جاسکتی ہیں

(1) (ازد ) انہوں نے اپنے سردار عمران بن عمرو مز یقیاء کے مشورے پر ترک وطن کیا ۔ پہلے تو یہ یمن ہی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے اور حالات کا پتا لگانے کے لیے آگے آگے ہراول دستوں کو بھیجتے رہے  لیکن آخر کار شمال کا رخ کیا اور پھر مختلف شاخیں گھومتے گھماتے مختلف جگہ دائمی طور پر سکونت پذیر ہوگئیں ۔  اس کی تفصیل درج ذیل ہے ۔

(ثعلبہ دن عمرو) اس نے اولا حجاز کا رخ کیا  اور تعلبیہ اور ذی قار کے درمیان اقامت اختیارکی ۔ جب اس کی اولاد بڑی ہوگئی اور خاندان مضبوط ہوگیا تومدینہ کی طرف کوچ کیا ۔ اور اسی کو اپنا وطن بنا لیا ۔ اسی ثعلیہ کی نسل سے اؤس اور خزرج ہیں  جو ثعلیہ کے صاجزادے حارث کے بیٹے ہیں ۔

 (حارثہ بن عمرو) یعنی خزاعہ اور اس کی اولاد یہ لوگ پہلے سرزمین حجاز میں گردش کرتے ہوئے مرالظہران  میں خیمہ زن ہوئے ۔ پھر حرم پر دھاوا بول دیا  اور بنو جرہم کو نکال کر خود مکہ میں بود و باش اختیار کر لی ۔

( عمران بن عمرو) اس نے اور اسکی اولاد نے عمان میں سکونت اختیار کی اسلیے میرلوگ از دعمان کہلاتے ہیں ۔

( نصر بن از د)  اس سے تعلق رکھنے والے قبائل نے تہامہ میں قیام کیا ۔ یہ لوگ از دشنوءۃ کھلاتے ہیں ۔

(جفنه بن عمرو)  اس نے ملک شام کا رخ کیا ۔ اور اپنی اولا وسمیت وہیں متوطن ہوگیا ۔ یہی شخص غسانی بادشاہوں کا  جد اعلی ہے ۔ انہیں آل غسان اس لیے کہا جا تا ہے کہ ان لوگوں نے شام منتقل ہونے سے پہلے حجاز میں غسان نامی ایک چشمے  پرکچھ عرصہ قیام کیا تھا  ۔

(2) لخم و جذام :  ان ہی لخمیوں میں نصر بن ربیعہ تھا  جو حیرہ کے شاہان آل منذر کا جد اعلی ہے ۔

(3) بنوطئ :  اس قبیلے نے بنو ازد کے ترک وطن کے بعد شمال کا رخ کیا  اور اجا،اورسلمی نامی دو پہاڑیوں کے اطراف میں مستقل طور پر سکونت پذیر ہوگیا ، یہانتک کہ یہ دونوں پہاڑیاں قبیلہ طئ کی نسبت سے مشہور ہوگئیں ۔

(4) کندہ : یہ لوگ پہلے بحرین (موجودہ  الاحساء) میں خیمہ زن ہوئے لیکن مجبورا وہاں سے دستکش ہوکر حضرموت گئے ۔ مگر وہاں بھی آمان نہ ملی اور آخر کار نجد میں ڈیرے ڈالنے پڑے ۔ یہاں ان لوگوں نے ایک عظیم الشان حکومت کی داغ بیل ڈالی، مگر حکومت پائیدار ثابت نہ ہوئی اوراس کے آثار جلد ہی ناپید ہو گئے ۔

 کہلان کے علاوہ حمیر کا بھی صرف ایک قبیلہ قضاعہ ایسا ہے ۔ اور اسکا حمیری ہونا بھی مختلف فیہ ہے ، جس نے یمن سے ترک وطن کرکے حدو دعراق میں بادیۃ  السمادہ کے اندر بود و باش اختیار کی ۔( محاضرات الامم الاسلامیہ للخضری 1/11-13)

(3) عرب مستعربہ

وہ عرب قبائل جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔ انہیں عدنانی عرب کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ ملکِ عرب میں باہر سے آکر آباد ہوئے،اس لئے ان کو عرب مستعربہ یا مخلوط عرب کا خطاب دیا گیا ،حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مادری زبان عجمی تھی،حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام معہ ان کی والدہ ہاجرہ کے جب مکہ معظمہ (ملک حجاز) میں چھوڑ گئے۔

اس وقت مکہ میں نہ پانی تھا  نہ آدم زاد ۔ اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام  نے ایک توشہ دان میں کھجور اور ایک مشکیزے میں پانی رکھ دیا ۔ اس کے بعد فلسطین واپس چلے گئے لیکن چند ہی دن میں کھجور اور پانی ختم ہوگیا سخت مشکل پیش آئی مگر اس مشکل وقت پر اللہ کے فضل سے زمزم کا چشمہ پھوٹ پڑا اور ایک عرصہ تک کے لیے سامان رزق اور متابع حیات بن گیا ۔ (تفصیل کے لئے بخاری 1/475 دیکھئے )  

کچھ عرصے بعد یمن  سے ایک قبیلہ آیا جسے تاریخ میں جرہم  ثانی کہا جاتا ہے ۔ یہ قبیلہ اسماعیل علیہ السلام کی ماں سے اجازت لے کر مکہ میں ٹھہر گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قبیلہ پہلے مکہ کے گردوپیش کی وادیوں میں سکونت پذیر تھا ۔ صحیح بخاری میں اتنی صراحت موجو دہے کہ (رہائش کی غرض سے )یہ لوگ حضرت اسماعیل علیہ اسلام کی آمد کے بعد اور ان کے جوان ہونے سے پہلے وارد ہوئے تھے ۔ لیکن اس وادی سے ان کا گزر اس سے پہلے بھی ہوا کرتا تھا۔( بخاری  1/475)۔

 حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے متروکات کی نگہداشت کے لیے وقتا فوقتا  مکہ تشریف لایاکرتے تھے لیکن معلوم نہ ہوسکا کہ اس طرح ان کی آمدکتنی بار ہوئی ۔  البتہ تاریخی مآخذ میں چار بار ان کی آمد کی تفصیل محفوظ ہے  جو کہ مندرجہ ذیل ہے ۔

(1)قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو خواب میں دکھلایا کہ وہ اپنے صاحبزادے (حضرت اسماعیل علیہ السلام ) کو ذبح کر رہے ہیں ۔ یہ خواب ایک طرح کا حکم الہی تھا اور باپ بیٹے دونوں اس حکم الہی کی تعمیل کے لیے تیار ہو گئے ۔ اور جب دونوں نے تسلیم خم کر دیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا تواللہ نے پکارا ہے ابراہیم ! تم نے خواب کو بیچ کر دکھایا ۔ ہم نیکو کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ۔ یقینا یہ ایک کھلی ہوئی آزمائش تھی اور اللہ نے انہیں فدیے میں ایک عظیم ذبیحہ عطا فر مایا۔ (تفصیل ملاحظہ کریں سورۃ الصافات آیت 102— 107 تک) اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے جوان ہونے سے پہلے کم ازکم ایک بار حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کا سفر ضرور کیا تھا ۔ بقیہ تین سفروں کی تفصیل صحیح بخاری کی ایک طویل روایت میں ہے جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے (بخاری  نمبر 3364)جس کا خلاصہ یہ ہے ۔

(2) حضرت اسماعیل علیہ السلام جب جوان ہو گئے ۔قبیلہ جرہم سے عربی سیکھ لی اور ان کی نگاہوں میں جچنے لگے تو ان لوگوں نے اپنے خاندان کی ایک خاتون سے آپ کی شادی کر دی ۔ اسی دوران حضرت باجرہ کا انتقال ہوگیا ۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کوخیال ہوا کہ بات کہ دیکھنا چاہئے ۔ چنانچہ وہ مکہ تشریف لے گئے ۔ لیکن حضرت اسماعیل سے ملاقات نہ ہوئی ۔ بہو سے حالات دریافت کئے ۔ اس نے تنگ دستی کی شکایت کی ۔ آپ نے وصیت کی کہ اسماعیل علیہ السلام آئیں توکہنا اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں ۔ اس وصیت کا مطلب حضرت اسماعیل علیہ السلام سمجھ گئے بیوی کو طلاق دے دی اور ایک دوسری عورت سے شادی کر لی جو جرہم کے سردار مضاض بن عمرو کی صاحبزادی تھی۔(قلب جزیرۃ  العرب 230)

(3) اس دوسری شادی کے بعد ایک بار پھر حضرت ابرام علیہ السلام مکہ تشریف لے گئے مگر اس دفعہ بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ملاقات نہ ہوئی ۔ بہو سے احوال دریافت کئے تو اس نے اللہ کی حمد وثناء کی ، آپ نے وصیت کی کہ اسماعیل علیہ السلام اپنے دروازے کی چوکھٹ برقرار رکھیں اور فلسطین واپس ہو گئے ۔

(4) چھوتی بار جب حضرت ابراہیم علیہ السلام مکہ میں  تشریف لائے تو اسماعیل علیہ السلام زمزم کے قریب درخت کے نیچے تیر گھڑ رہے تھے ۔ دیکھتے ہی لپک پڑے اور وہی کیا جو ایسے موقع پر ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور بٹیا باپ کے ساتھ کرتا ہے ۔ یہ ملاقات اتنے طویل عرصے کے بعد ہوئی تھی کہ ایک نرم دل اور شفیق باپ اپنے بیٹے سے اور ایک اطاعت شعار بیٹا اپنے باپ سے بمشکل ہی اتنی لمبی جدائی برداشت کر سکتا ہے ۔اسی دفعہ دونوں نے مل کر خانہ کعبہ تعمیر کیا ۔ بنیاد کھودکر دیواریں اٹھائیں اورابراہیم علیہ اسلام نے ساری دنیا کے لوگوں کو حج کے لیے آواز دی ۔ اللہ تعالی نے مضاض کی صاحبزادی سے اسماعیل علیہ السلام کو بارہ بیٹے عطا فرمائے،  جن کے نام یہ ہیں ۔ نابت یا نبایوط ، قیدار ، ادبائیل ، مبشام ، مشماع ، دوما، میشا ، حدد ، تیما ، یطور نفیس ، قیدمان،  ان بارہ بیٹوں سے بارہ قبیلے وجود میں آئے اور سب نے مکہ ہی میں بودو باش اختیار کی ۔ ان کی معیشت کا دارومدار زیادہ تر یمن اور مصر و شام کی تجارت پر تھا ۔ بعد میں یہ قبائل جزیرۃ العرب کے مختلف اطراف میں، بلکہ بیرون عرب بھی پھیل گئے،  اور ان کے حالات ، زمانے کی دبیز تاریکیوں میں دب کر رہ گئے ۔ صرف نابت اور قیدار کی اولا داس گمنامی سے مستثنی ہیں ۔ نبطیوں کے تمدن کو شمالی حجاز میں فروغ اور عروج حاصل ہوا ۔ انہوں نے ایک طاقتور حکومت قائم کر کے گرد و پیش کے لوگوں کو اپنا باجگذار بنالیا بطراء ان کا دارالحکومت تھا ۔ کسی کو ان کے مقابلے کی تاب نہ تھی ۔ پھر رومیوں کا دور آیا اور انہوں نے نبطیوں کو قصہ پارینہ بنا دیا ۔

 مولاناسید سلیمان ندوی نے ایک دلچسپ بحث اور گہری تحقیق کے بعد ثابت کیا ہے کہ آل غسان اور انصاریعنی اوس وخزرج قطانی عرب نہ تھے ، بلکہ اس علاقے میں نابت بن  اسماعیل   کی جو نسل بچی کھچی رہ گئی تھی وہی تھے۔(تاریخ ارض قرآن 2/78-86)

 قیدار بن اسماعیل علیہ السلام کی نسل مکہ ہی میں پھلتی پھولتی رہی،یہاں تک کہ عدنان اور پھران کے بیٹے معد کا زمانہ آگیا ۔ عدنانی عرب کا سلسلہ نسب صحیح طور پر یہیں تک محفوظ ہے ۔

 عدنان ، نبی ﷺ کے سلسلہ نسب میں اکیسویں پشت پر پڑتے ہیں ۔ بعض روایتوں میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ جب اپنا سلسلہ نسب ذکر فرماتے تو عدنان پر پہنچ کر رک جاتے اور آگے نہ بڑھتے ۔ فرماتے کہ ماہرین انساب غلط کہتے ہیں(طبری تاریخ الامم والملوک ۱۹۱ / ۲-۱،۱۹۴ لا علام ۵ / ۶ مگر علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ عدنان سے آگے بھی نسب بیان کیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے اس روایت کو ضعیعت قرار دیا ہے ۔ ان کی تحقیق کے مطابق عدنان اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درمیان چالیس پشتیں ہیں ۔ بہرحال معد کے بیٹے نزار سے جن کے متعلق کہا جا تا ہے کہ ان کے علاوہ معدہ کی کوئی اولاد نہ تھی کئی خاندان وجود میں آئے ، درحقیقت نزار کے چار بیٹے تھے اور ہر بیٹا ایک بڑے قبیلے کی بنیاد ثابت ہوا ۔ چاروں کے نام یہ ہیں ، ایاد ، انمار ، ربیعہ اور مضر ، ان میں سے مؤخر الذکر دو قبیلوں کی شاخیں اور چاخوں کی شاخیں بہت زیادہ ہوئیں ۔ چنانچہ ربیعہ سے اسدبن ربیعہ ،عنزه ، عبدالقیس ، وائل ، بکر ، تغلب اور بنوحنیفہ وغیرہ وجود میں آئے ۔

مضر کی اولاد دو بڑے قبیلوں میں تقسیم ہوئی

 (1) قیس عیلان بن مضر ۔       (2) الیاس بن مضر ۔

 قیس عیلان سے بنوسلیم ، بنو ہوازن ، بنوغطفان ، غطفان سےعبس ، ذبیان ، اشجع اور غنی بن اعصر کے قبائل وجود میں آئے ۔

 الیاس بن مضمر سے تمیم بن مرہ ، ہذیل بن مدرکہ ، بنواسد بن خزیمہ اور کنان بن خزیمہ کے قبائل جود میں آئے ۔

پھر کنانہ سے قریش کا قبیلہ وجود میں آیا ۔ یہ قبیلہ فہربن مالک بن نضر بن کنانہ کی اولاد ہے ۔ پھر قریش بھی مختلف شاخوں میں تقسیم ہوئے ،مشہور قریشی شاخوں کے نام یہ ہیں۔  جمح، سہم، ، عدی ، محزوم، تیم، زہرہ اورقصی بن کلاب کے خاندان یعنی عبدالدار ، اسدبن عبدالعزی اور عبد مناف، یہ تینوں قُصِی کے بیٹے تھے ۔ ان میں سے علادمناب کے چار بیٹے ہوئے جن سے چار ذیلی قبیلے وجود میں آئے ۔  یعنی عبد الشمس، نوفل، مطلب اور ہاشم،ا نہیں ہاشم کی نسل سے اللہ تعالی نے ہمارے حضور محمد ﷺ کا انتخاب فرمایا ۔

 رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے اسماعیل علیہ السلام کا انتخاب فرمایا، پھراسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کنانہ کو منتخب کیا، اور ان کی نسل سے قریش کو چنا  پھر قریش میں سے بنو ہاشم کا انتخاب کیا اور بنو ہاشم میں سے میرا انتخاب کیا۔( صحیح مسلم ۲ / ۴۵ ۲ ، جامع ترندی ۲۰۱/۲)

  ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی نے خلق کی تخلیق فرمائی، تو مجھے سب سے اچھے گروہ میں بنایا، پھر ان کے بھی دو گروہوں میں سے زیادہ اچھے گروہ کے اندر رکھا ، پھر قبائل کو چنا تو مجھے سب سے اچھے قبیلے کے اندر بنایا، پھر گھرانوں کو چنا مجھے سے اچھے  گھرانے میں بنایا لہذا میں اپنی ذات کے اعتبار سے بھی سب سے اچھا ہوں ، اور اپنے گھرانے کے اعتبار سے بھی سب سے بہتر ہوں۔(ترمذی 2/201)۔

بہرحال عدنان کی نسل جب زیادہ بڑھ گئی تو وہ چارے پانی کی تلاش میں عرب کے مختلف

 اطراف میں بکھرگئی ،چنانچہ قبیلہ عبد القیس  نے بکر بن وائل کی کئی شاخوں نے اور بنوتمیم کے خاندانوں نے بحرین کا رخ کیا اور اسی علاقے میں جا بسے ۔

 بنوحنیفہ بن صعب بن علی بن بکر نے یمامہ کا رخ کیا، اور اس کے مرکز حجر میں سکونت پذیر ہو گئے ۔ بکر بن وائل کی بقیہ شاخوں نے ، یمامہ سے لے کر بحرین مسائل کا ظلمہ ، خلیج ، سوادعراق ، ابلہ اور ہیت تک کے علاقوں میں بودوباش اختیار کی ۔

 بنوتغلب جزیرہ فراتیہ میں اقامت گزیں ہوئے ۔ البتہ ان کی بعض شاخوں نے بنو بکر کے ساتھ سکونت اختیار کی ۔   بنوتمیم نے بادیہ بصرہ کو اپنا وطن بنایا ۔

 بنوسلیم نے مدینہ کے قریب ڈیرے ڈالے ۔ ان کا مسکن وادی القری سے شروع ہوکر خیبر اور مدینہ کے مشرقی سے گذرتا ہوا  حرہ بوسلیم سے متصل دو پہاڑوں تک منتہی ہوتا تھا ۔

بنو ثقیف نے طائف کو وطن بنا لیا اور بنو ہوازن نے مکہ کے مشرق میں وادی او طاس کے گردوپیش ڈیرے ڈالے ۔ ان کا مسکن مکہ ۔ بصرہ شاہراہ پر واقع تھا ۔  

بنواسد تیماءکے مشرق اور کوفہ کے مغرب میں خیمہ زن ہوئے ۔ ان کے اور تیماء کے درمیان بوطئ  کا ایک خاندان بحتر آباد تھا ۔ بنواسد کی آبادی اور کوفے کے درمیان پانی دن کی مسافت تھی ۔   بنو ذبیان تیماء کے قریب خوْرَان کے اطراف میں آباد ہوئے ۔

 تِہامہ میں بنوکنانه کے خاندان رہ گئے تھے ۔ ان میں سے قرشی خاندانوں کی بودو باش مکہ اوراس کے اطراف میں تھی ، یہ لوگ پراگندہ تھے ، ان کی کوئی شیرازہ بندی نه تھی  تا آنکه قصی بن کلاب ابھر کر منظر عام پر آیا،  اور قریشیوں کو متحد کر کے شرف وعزت اور بلندی وقار سے بہرہ ور کیا ہے . (محاضرات خضری ۱ / ۱۹۰۱۵ 41/ 653 بحوالہ  الرحیق )


اصول ماخذ سیرت نگاری

 

اصول ماخذ سیرت نگاری

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم لکھنے کے کچھ اصول ہیں ، جن سے استفادہ کرتے ہوئے سیرت النبی ﷺ لکھی جانی چاہئے ، ان اصولوں کی تعداد و ترتیب میں اختلاف ہے ۔ اس موضوع پر مستقل کتب اگر چہ نہیں لکھی گئیں ہیں لیکن ضمنا بعض کتب سیرہ میں مجملا یہ بحث موجود ہے ۔

اسلام کے دیگر موضوعات مثلا حدیث کے لئے اصول حدیث ، فقہ کے لئے اصول فقہ اور علم کلام کے لئے اصول علم کلام علم تاریخ کے لئے اصول علم تاریخ کا فن موجود ہے ۔ جس کے ذریعہ ان علوم کی ترتیب و تدوین اور پرکھنے میں مدد لی جاتی ہے ۔  لہذا سیرت النبی ﷺ کے لئے بھی علماء نے کچھ اصول (جسے اصول سیرت النبی  ﷺکہا جا تا ہے) مرتب کئے ہیں ، جس میں سیرت النبی ﷺ کے لئے ماخذ و مصادر کا تعین کیا جاتا ہے  تاکی اس علم میں بہتری پیدا ہو اور افراط و تفریط سے بچا جا سکے ۔

سیرت کا ماخذ ومصادر

پہلا ماخذ قرآن کریم  :- یوں تو سب سے پہلے سیرت کا بنیادی مصدر خود آپ ﷺ کی ذات ہے اور آپ کی ذات سے وہی کچھ صادر ہوتا تھا جو قرآن کریم کی تعلیم ہے جیسا کہ  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے آپ ﷺ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو  حضرت عائشہ  نے فرمایا ( كان خُلُقُه القُرآنَ) کہ نبی کریم ﷺ کے  وہی اعمال و اخلاق تھے جن کی قرآن کریم نے تعلیم دی ہے ۔ لہذا  سیرت نبوی  کا سب سے اہم، سب سے مستند اورسب سے زیادہ صحیح حصہ وہ ہے جس کا ماخذ قرآن مجید ہے۔  اور قرآن مجید  جس کی صحت کے بارے میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا،  وہ حضور اکرمﷺ  کی زندگی کے ضروری اجزاکو چیدہ چیدہ اِس طرح بیان کرتا ہے، مثلاً:نبوت سے پہلے مکی زندگی،یتیمی،حق کی تلاش اور پھر نبوت سے سرفرازی،وحی،تبلیغ،معراج،مخالفین کی دشمنی،ہجرت اور آپﷺ  کے اخلاق حسنہ۔

دوسرا  ماخذ تفسیر : نبی کریم ﷺ سے منقول تفسیری روایات ، قرآن کریم کے بعد سیرت کا دوسرا ماخذ تفسیر ماثور ہے ۔ اور  ما ثور  اس تفسیر کو کہا جاتا ہے  جو نفس قرآن کریم کے متن یا سنت صحیحہ یا صحابہ و تابعین سے ۔ منقول ہو ۔ ارشاد  باری تعالی  ہے : وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ    44؀

ہم نے آپ ﷺ پر قرآن نازل کیا تا کہ لوگوں کے لئے اس کی تفسیر بیان کریں ۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے پہلے مفسر خود آپ ﷺ ہیں ، چنانچہ جب قرآنی آیات کی تشریح و توضیح کی جاتی ہے تو سیرت رسول ﷺ کی نسبت سے وہ مقامات زیادہ اہم ہو جاتے ہیں جہاں اللہ تعالی نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب بنایا ہے ،  یا  آپ ﷺ کی زندگی کے مختلف واقعات کی طرف اجمالی اشارے گئے ہیں، ایسے موقع پر آپ ﷺ کی وضاحت ہی حقیقی تفسیر اور سیرت کی بنیاد ہوتی ہے،  اسی طرح جب یہ معلوم کرنا ہو کہ آیات قرآنی کے نزول کے اوقات ، اسباب اور مقامات کون کون سے تھے ؟ اور ان کا آپ ﷺ کی ذات سے کیا تعلق تھا ؟ اس کی وضاحت  فقط تفسیر سے ہوتی ہے ۔ اس لئے کتب تفاسیر سیرت النبی ﷺ کا اہم سرچشمہ قرار دی گئی ہے ۔  جن عظیم شخصیات نے سیرت و مغازی کو جمع کیا ہے انہی سے تفسیر قرآن کا ذخیرہ بھی منقول ہے ۔

تیسرا  ماخذ حدیث رسول ﷺ : سیرت  النبی ﷺ  کا تیسرا ماخذ حدیثوں کا وہ سرمایہ ہے جس کا ایک ایک حصہ بہت ہی ناپ تول اور پرکھا ہوا ہے؛ اس میں آپ کے حالات بھی ہیں اور تعلیمات بھی ہیں ۔ لہذا تمام کتب احادیث کا حصہ سیرت ہے ۔ ابتداء اسلام میں تفسیر حدیث سیرت ایک ہی حلقہ درس کے اسباق تھے بعد میں جدا جدافن کی حیثیت سے مدون ہوتے گئے ۔

سیرت کا حدیث سے تعلق : آپ نے مطالعہ کر لیا کہ حدیث اور سیرت ابتداء میں ایک ہی حلقہ کے اسباق تھے، لیکن حدیث کا درجہ سیرت سے زیادہ بلند ہے ۔ اس لئے کہ اخذ حدیث کے لئے جو سخت شرائط رکھی گئی ہیں ۔ سیرت کے نقلی میں انہیں محفوظ نہیں رکھا گیا ہے ۔ سیرت بغیر حدیث کے مکمل نہیں ہوسکتی ہے خود سیرت کا بہت بڑا ذخیرہ کتب احادیث میں محفوظ ہے۔  اس وجہ سے  سیرت کا تیسرا  اصول حدیث کو قرار دیا گیا ہے ۔

جناب نبی کریم ﷺ کی سیرت احادیث مبارکہ سے لبریز ہے ، اس کی بہت ساری مثالیں احادیث میں دیکھی جاسکتی ہیں ، مثلا

کفار کے ساتھ حسن سلوک :   کفار کے ساتھ اپ ﷺ نے حسن سلوک کا برتاؤ کیا حالانکہ وہ کونسا ظلم تھا جوکفار ومشرکین نے مکہ مکرمہ میں سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم اور صحابہٴ کرام کے ساتھ روا نہ رکھا۔ حتی کہ آپ ﷺ کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کیاگیا۔ آپ صلى الله عليه وسلم مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں بھی سکون واطمینان سے رہنے نہیں دیاگیا۔ اور طرح طرح کی یورشیں جاری رکھی گئیں، یہودیوں کے ساتھ مل کر رحمت ِ عالم ﷺاور مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند مہم چھیڑ دی گئی۔ فتح مکہ کے موقع پر کفار مکہ کو موت اپنے سامنے نظر آرہی تھی ان کو خطرہ تھا کہ آج ان کی ایذا رسانیوں کا انتقام لیا جائے گا،سرکاردوعالم ﷺ نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا: اے قریشیو! تم کو کیا توقع ہے،اس وقت میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا؟ انھوں نے جواب دیا: ہم اچھی ہی امید رکھتے ہیں، آپ کریم النفس اور شریف بھائی ہیں اور کریم اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا:

”میں تم سے وہی کہتا ہوں جو یوسف عليه السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا، آج تم پر کوئی الزام نہیں؛ جاؤ تم سب آزاد ہو“(زاد المعارج:۱/۴۲۴) ۔   رواه الأزرقي في  أخبار مكة 2/121 و ابن عساكر في  تاريخ دمشق 73/53  و ابن زنجوية في الأموال 1/293  من حديث عطاء و الحسن و طاوس رحمهم الله . 

یہودیوں کے ساتھ حسن سلوک : اسی طرح  مدینہ میں یہودیوں کے مختلف قبائل  آباد تھے،  جب نبی کریم ﷺ مدینہ ہجرت کر کے ائے ابتداءً یہود غیر جانب داراور خاموش رہے لیکن اس کے بعد وہ اسلام اور نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں کے تئیں اپنی عداوت اور معاندانہ رویہ زیادہ  دنوں تک نہ چھپا سکے۔  انہوں نے سرکارِ دوعالم ﷺ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی خفیہ سازشیں کیں، بغاوت کے منصوبے بنائے، آپ صلى الله عليه وسلم کے کھانے میں زہر ملایا آپ ﷺ کو شہید کرنے کی تدبیریں سوچیں، اسلام اور مسلمانوں کو زَک پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا،لیکن قربان جائیے رحمت ِ عالم ﷺ  پر کہ آپ ﷺ نے ان کے ساتھ نہایت اعلیٰ اخلاق کامظاہرہ کیا۔ مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد سرکارِدوعالم صلى الله عليه وسلم نے یہودیوں کے ساتھ ایک اہم معاہدہ کیا تاکہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان خوش گوار تعلقات قائم ہوں، معاہدہ کی چند دفعات یہ تھیں۔

۱-  تمام یہودیوں کو شہریت کے وہی حقوق حاصل ہوں گے جو اسلام سے پہلے انھیں    حاصل تھے۔

۲- مسلمان تمام لوگوں سے دوستانہ برتاؤ رکھیں گے۔

۳- اگر کوئی مسلمان کسی یثرب والے کے ہاتھ مارا جائے تو بہ شرط منظوری ورثاء قاتل   

    سے خوں بہا لیا جائے گا۔

۴- باشندگان مدینہ میں سے جو شخص کسی سنگین جرم کا مرتکب ہو اس کے اہل وعیال سے اس کی سزا کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔

۵- موقع پیش آنے پر یہودی مسلمانوں کی مدد کریں گے، اور مسلمان یہودیوں کی ۔

۶- حلیفوں میں سے کوئی فریق اپنے حلیف کے ساتھ دروغ گوئی نہیں کرے گا۔

۷- مظلوموں اور ستم رسیدہ شخص کی خواہ کسی قوم سے ہو مدد کی جائے گی۔

۸- یہود پر جو بیرونی دشمن حملہ آور ہوگا تو مسلمانوں پر ان کی امداد لازمی ہوگی۔

۹- یہود کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔

۱۰- مسلمانوں میں سے جو شخص ظلم یا زیادتی کرے گا تو مسلمان اسے سزادیں گے۔

۱۱- بنی عوف کے یہود ی مسلمانوں میں ہی شمار ہوں گے۔

۱۲- یہودیوں اور مسلمانوں میں جس وقت کوئی قضیہ پیش آئیگا تو اس کا فیصلہ رسول الله      کریں گے۔

۱۳- یہ عہد نامہ کبھی کسی ظالم یاخاطی کی جانب داری نہیں کریگا۔ (سیرة ابن ہشام:         ص:۵۰۱- تا- ۵۰۴)

آپ نے ملاحظہ فرمایا اس معاہدے میں کس فیاضی اور انصاف کے ساتھ یہودیوں کو مساویانہ حقوق دیے گئے ہیں۔ اور یہ سب احادیث میں محفوظ ہیں ۔

عیسائیوں کے ساتھ حسن سلوک: عیسائیوں کے ساتھ بھی سرورعالم صلى الله عليه وسلم نے مثالی رواداری برتی۔ مکہ مکرمہ اور یمن کے درمیان واقع ”نجران“ کا ایک موقر وفد آپ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کو مسجد میں ٹھہرایا انھوں نے سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم کے ساتھ مذہبی معاملات میں گفتگو کی عیسائیوں کے ساتھ اس موقع پر ایک تاریخی معاہدہ ہوا، جس میں عیسائیوں کو مختلف حقوق دینے پر اتفاق کیاگیا ہے۔معاہدہ کی دفعات درج ذیل ہیں:

(۱)  ان کی جان محفوظ رہے گی۔

(۲)  ا ن کی زمین جائداد اور مال وغیرہ ان کے قبضے میں رہے گا۔

(۳)   ان کے کسی مذہبی نظام میں تبدیلی نہ کی جائے گی۔ مذہبی عہدے دار اپنے اپنے  

        عہدے پر برقرار رہیں گے۔

(۴)  صلیبیوں اور عورتوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے گا۔

(۵)    ان کی کسی چیز پر قبضہ نہ کیاجائے گا۔

(۶)    ان سے فوجی خدمت نہ لی جائے گی۔

(۷)    اور نہ پیداوار کا عشر لیا جائے گا۔

(۸)    ان کے ملک میں فوج نہ بھیجی جائے گی۔

(۹)    ان کے معاملات اور مقدمات میں پوراانصاف کیا جائے گا۔

(۱۰)   ان پر کسی قسم کا ظلم نہ ہونے پائے گا۔

(۱۱)    سود خواری کی اجازت نہ ہوگی۔

(۱۲)    کوئی ناکردہ گناہ کسی مجرم کے بدلے میں نہ پکڑا جائے گا۔

(۱۳)    اور نہ کوئی ظالمانہ زحمت دی جائے گی۔ (دین رحمت:۲۳۹، بحوالہ: فتوح  البلدان بلاذری)

مذکورہ بالا جو حقوق اسلام نے دیگر اقوام اور رعایا کو عطا کیے ہیں ان سے زیادہ حقوق تو کوئی اپنی حکومت بھی نہیں دے سکتی۔ جو غیر مسلم اسلامی حکومت میں رہتے ہیں اس کے متعلق اسلامی نقطہ ٴ نظر یہ ہے کہ وہ اللہ ورسول کی پناہ میں ہیں اسی لیے ان کو ذمی کہا جاتاہے اسلامی قانون یہ ہے کہ جو غیر مسلم (ذمی) مسلمانوں کی ذمہ داری میں ہیں ان پر کوئی ظلم ہو تو اس کی مدافعت مسلمانوں پر ایسی ہی لازم ہے جیسی خود مسلمانوں پر ظلم ہوتواس کا دفع کرنا ضروری ہے۔ (المبسوط للسرخسی:۱/۸۵)

منافقین اور دیگر غیر مسلم رعایا کے ساتھ حسن سلوک : اس کے علاوہ  منافقین  اور  غیر مسلم رعایا کے ساتھ بھی آپ ﷺ کا حسن سلوک اور رواداری  بے مثال ہے ،  حتی کی  منافقین کا سربراہ عبداللہ بن ابی ابن سلول جو  اپنے کو مسلمان ظاہر کرنے کے باوجود دل سے کافر ہی رہا،  جس نے اسلام خلاف ہر قسم  سازش کرنے کی کوشش کی ،  ان کی شرارتوں اور عداوتوں کے باوجود سرکاردوعالم ﷺ نے عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ بھی پڑھائی۔ ان کے لڑکے کی درخواست پر اپنا جبہ مبارکہ اس کے کفن کے لیے مرحمت فرمایا۔ اس کے علاوہ  آپ ﷺ نے غیر مسلم اقوام اور رعایا کے ساتھ مثالی رحم وکرم، مساوات وہمدردی، اور رواداری کا معاملہ کیا ہے اور ان کو انسانی تاریخ میں پہلی بار وہ سماجی اور قومی حقوق عطا کیے جو کسی مذہب یا تمدن والوں نے دوسرے مذہب وتمدن والوں کو کبھی نہیں دیئے۔ جوغیر مسلم اسلامی ریاست میں قیام پذیر ہوں اسلام نے ان کی جان، مال، عزت وآبرو اور مذہبی آزادی کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔ یہ چند مثالیں آپ کے سامنے ذکر کی گیں احادیث میں  بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔الغرض سیرت النبی ﷺ کا تیسرا  ماخذ حدیث رسول ﷺ ہے۔

چوتھا ماخذ شمائل نبوی ﷺ : شمائل کا  سیرت کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے ۔ جس میں  آپ ﷺ کی ذاتی خدوخال کو بھی پیش کرنا ہوتا ہے تا کہ سامع و قاری اس بے مثال شخصیت کو اپنے سامنے کھڑا ہوا محسوس کرے  ، اوریہ شمائل سے استفادہ کئے بغیرممکن نہیں ہے ۔ شمائل میں آپ ﷺ کے حلیہ مبارک ، عادات و خصائل ، معمولات زندگی ، لباس ، نشست و برخاست ، قد ، رنگ ، بال جسم کے نشیب وفراز ، خوردونوش ، مرغوبات ومکروہات ، غرض بشری احوال کی تفصیلات جمع کی جاتی ہیں ۔ اسی لئے سیرت نگاروں نے اسے بھی اصل و مصدر کی حیثیت سے ذکر کیا ہے ۔  لہذا  کچھ محدثین نے اپنی کتابوں میں آپ ﷺ کی شمائل  کو جگہ دی ہے ، اور بعض نے اس پر مستقل کتابیں لکھی ہیں اور شمائل پر اولیت کا شرف امام ترمذی کو حاصل ہے  جس نے  چار سو احادیث کی مدد سے ’’الشمائل ‘‘مرتب کی ۔ یہی وہ کتاب ہے جس نے بعد کی کتب سیرت وشائل کے مندرجات کو ایک نئی سمت عطا کی ہے ۔  اس کے علاوہ اور بھی شمائل پر کتب تصنیف کی گئی ہیں ۔ 

پانچواں ماخذ مغازی :  مغازی کے معنی ہیں قصد و ارادہ ۔ شریعت میں مغازی کا مطلب کفار سے قتال کرنا ۔ ابن حجر فرماتے ہیں مغازی سے مراد رسول اللہ ﷺ کا بنفس نفیس یا اپنے لشکر کے ذریعہ کفار کا قصد کرنا یہ قصد کفار کے شہروں کا ہو یا جہاں وہ اترے ہیں۔(فتح الباری  کتاب جہاد و السیر 6/279)   بعد میں مغازی کے معنی میں وسعت پیدا ہوگئی اور مغازی کا اطلاق صرف غزوات پر نہیں بلکہ سیرت پر بھی کیا گیا  ۔

 سیرت کا مغازی سے تعلق : علم السیر ، حدیث شما ئل اور مغازی ایک ہی تصویر کے مختلف رخ ہیں ۔ اس لئے کہ ان سب کا موضوع نبی ﷺ کی ذات ، تعلیمات اور آپ کا عمل ہے ۔ آپ ﷺ کی شخصیت کا ایک پہلو رحمۃ للعالمین ہوتا ہے ۔ تو اس رحمت کا دوسرا تقاضہ قتال فی سبیل اللہ  بھی ہے ۔ جس کی طرف قرآن کریم کے اشارہ کیا ہے ۔ (مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ) الفتح 29

محمد ﷺ رسول اللہ ﷺ اور جو صحابہ ان کے ساتھ میں یہ کفار کے مقابلہ میں سخت  اور باہمی معاشرت میں نہایت رحمدل ہیں ۔

لہذا تمام سیرت نگاروں نے مغازی کو بھی سیرت کے ماخذ میں شامل کیا ہے ۔ (سیرت نگاری صفحہ 137 ،  پروفیسر ڈاکٹر صلاح الدین ثانی)

مغازی پر چند  کتب 

(1)مغازی رسول ﷺ، یہ عروہ بن زبیر کی سیرت النبی ﷺ پر پہلی تصنیف ہے ۔ اسے آپ کے شاگرد ابوالاسود نے روایت کیا ہے ، جن کا نام محمد تھا ، یہ قلمی نسخہ کی شکل میں محفوظ تھی ، اسے ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی نے ایڈٹ کر کے شائع کیا ہے ، اس کا اردو ترجمہ محمدسعید الرحمن نے کیا ہے ۔ ادارہ ثقافت اسلامیہ لا ہور ۱۹۸۷ ء سے شائع ہوا ۔  اس کے علاوہ درج ذیل  افراد کی مغازی  زیادہ مشہور ہیں ۔

(2) کتاب المغازی : یہ کتاب  ابن شہاب زہری ( ۵۱ ھ ۔۱۴۴ ھ ) کی ہے  (آپ نے یہ کتاب غالبا حضرت عمر بن عبدالعزیز فرمائش پرلکھی ۔

(3) کتاب المغازی : یہ کتاب ابوالاسود محمد بن عبدالرحمن بن نوفل ( م ۱۳۱ یا ۱۳۷ ھ ) کی ہے ۔

(4) کتاب المغازی  : یہ کتاب موسی بن عقبہ بن ربیعہ بن ابی عیاش الاسدی ( ۵۵ ھ - ۱۴۱ ھ ) کی ہے ۔

(5) کتاب المغازی:  یہ معمر بن راشد ( ۵۹۲۔۱۵۰ ھ ) کی کتاب ہے  ۔

(6) کتاب المغازی والسير: یہ کتاب  محمد بن اسحاق بن یار بن خیار ( ۵۸۵ -۱۵۴ ھ ) کی ہے ۔

(7) زاد المعاد فی ھدی خیر العباد : یہ کتاب علامہ ابن القیم کی ہے ، اور سیرت اور حصائل و شمائل  کے موضوع پر تحقیقی کتاب ہے ۔ ( بحوالہ  سیرت نگاری 141 )۔

 چھٹا ماخذ  معاہدات ، مکاتیب ، فتاوی وطب نبوی ﷺ :  یہ سیرت طیبہ ﷺ سے جدا کر کے کچھ پہلوؤں پر الگ حیثیت میں انہیں مدون کیا گیا ہے ۔ ان میں سے آپ ﷺ کے معاہدات ومکتوبات کا پہلو ہے ۔  آپ کے فیصلے وفتاوی ہیں ۔  تیسرے طب کے حوالہ سے آپ ﷺ کی ہدایات ہیں ۔  یہ موضوعات درج ذیل اقسام پر مشتمل ہیں ۔

(1) نئے معاہدے یا پرانے معاہدوں کی تجدید ۔

(2) وہ خطوط  جو تبلیغی نقطہ نظر سے لکھے ہوئے ہیں  ۔

(3) سرکاری نمائندوں کو ارسال کئے گئے  خطوط  اور  احکامات و ہدایات۔

(4)  اجراء دستاویزات ملکیت اراضی و اجناس وغیره۔

 (5) مخصوص افراد کے لئے ہدایات جیسے خطبہ حجتہ الواع۔

 (6)جوابی خطوط ۔

(7) مسلمانوں یا غیر مسلموں کی جانب سے آپ کو حکم بنانا  اور اس کی روشنی میں فیصلوں کا اجراء عمل میں آنا  جسے فتاوی کا عنوان دیا گیا ہے ۔

(8) یا مسلمانوں کا آپ سے کوئی مسئلہ دریافت کرنا اور آپ ﷺ کا جواب عنایت فرما نا۔

(9)  آپ ﷺ کا بیماری میں خود اپنا علاج کرنا ، بیماری کے لئے دوا تجویز کرنا ۔

سیرت کا معاہدات ، مکاتیب ، فتاوی و طب نبوی ﷺ سے تعلق :

آپ ﷺ کی شخصیت نبی ہونے کے ساتھ سر براہ و قائد کی بھی تھی ۔ اس حیثیت میں آپ نے مسلمانوں کی طرف سے دیگر اقوام سے معاہدے کئے ، ان سیاسی معاہدوں کا آغاز مدینہ سے شروع ہوتا ہے ، گویا آپ ﷺ کی شخصیت کا یہ وہ پہلو ہے جس سے اقوام وملل کے  آپ ﷺ ساتھ معاملات کے اسلوب کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ اور کسی انسان کے اندر کی انسانیت کو اس کے معاملات میں سے پرکھا جاتا ہے ۔ اور کسی قائد کا خلوص وتعلق اپنے ماتحتوں سے انہی روابط سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں سے کتنا قریب ہے ان کے اجتماعی و انفرادی مسائل حل کرنے میں کس حد تک متفکر رہتا ہے حتی کہ فکری و معاشرتی معاملات کے ساتھ ان کے ذاتی معاملات صحت و مرض کی کیفیات میں بھی ان کی رہنمائی کرنا ہی شان صرف آپ ﷺ کی ہے، دنیا کا کوئی قائد ایسانہیں ملے گا  جو اپنے ماننے والوں کے ذاتی مسائل اتنی نچلی سطح پر آ کر حل کرتا ہو ۔  لہذا سیرت نگار کے لئے ضروری ہے وہ اس اصول سے بھی واقفیت رکھتا ہو اور طب نبوی ﷺ سے بھی اسے آگاہی ہو ، تا کہ آپ ﷺ کی شخصیت کے اس پہلو کو بہتر طور پر نکھار کر قاری وسامع کے سامنے پیش کر سکے ۔

توضیح : معاہدہ اس معاملہ کو کہتے ہیں جو دو جانبین سے وجود میں آئے ، اقوام عالم میں کئے گئے معاہدات کا نبی ﷺ سے کئے گئے معاہدات سے تقابلی مطالعہ کیا جائے تو یہ بات نکھر کر سامنے آتی ہے کہ آپ ﷺ نے کمزور اقوام سے بھی برابری کی بنیاد پر معاہدے گئے اور جب معاہدہ کیا تو اسے ہر قیمت پر باقی رکھا اور معاہدہ کی جوبھی قیمتادا کرنی پڑی خوش دلی سے ادا کی۔

خطوط: آپ ﷺ نے جو خطوط لکھے ہیں وہ آپ ﷺ کی شخصیت کی وسعت حکمرانی کو نہیں بلکہ  عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ    (التوبہ 128)کی ترجمانی کرتی ہے ۔ معاہدات کی طرح مکاتیب بھی یکجا کر کے شائع کئے ہیں اور تین مکتوبت ایسے ہیں جو اصل حالت میں آج بھی دستیاب ہیں۔)سیرت نگاری ص 147)

فتاوی : صحابہ کرام کا مرجع تو آپ ﷺ کی ذات کی تھی ، لیکن کچھ غیر مسلم بھی اپنے  معاملات فیصلہ کے لئے آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کر تے ، اس معاملہ کے دونوں فریق سبھی مسلم و غیرمسلم ہوتے اور کبھی دونوں فریق غیر مسلم ہوتے تھے ۔ یہ فیصلے آپ ﷺ کی انصاف پسندی کا مظہر ہیں ۔ ان فیصلوں اور فتاوی کو بھی یکجا کر دیا گیا ہے ۔ سیرت نگار کے لئے ضروری ہے کہ وہ آپ ﷺ کی انصاف پسندی ، معاشرتی معاملات اور ادراک مسئلہ پر لکھتے ہو ئے  ان فیصلوں کا مطالعہ کرے تا کہ قضاء کے جو ہر کونکھارا جاسکے ۔ ان فتاوی میں عقیدہ توحید و رسالت ، تخلیق انسانی ، قیامت ، مشرکین اور ان کی اولادوں ، ہجرت ، جہاد ، مسح خفین ، نماز اور اس کے اوقات ، زکوۃ ، صدقات سے متعلق سوالات کے جوابات  دیئے گئے ہیں ۔

طب : جہاں تک طب کا تعلق ہے ، اس شعبہ کے حوالہ سے بھی آپ ﷺ نے مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی ہے اور علماء نے اسے طب نبوی ﷺ کے نام سے جمع کر دیا ہے ۔

ساتواں ماخذ  علم دلائل النبوۃ والمعجزات ہیں۔  دلائل دلیل کی جمع ہے ، دلائل النبوہ کا مطلب ہے ، ایسے دلائل جو نبی کی نبوت کی صداقت واثبات کے لئے اللہ تعالی کی طرف سے عطا کئے جاتے ہیں ۔ یہی مفہوم معجزات کا ہے ، یعنی ایسی دلیل جس کا جواب دینے سے مخالفین عاجز آ جائیں ۔

سیرت کا دلائل ومعجزات سے تعلق : سیرت کا دلائل سے بھی تعلق ہے ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دلائل سیرت ہی کا حصہ ہے اور آدم علیہ السلام سے ہمارے پیغمبر تک تمام انبیاء کو نبوت کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالی کی طرف سے ہر زمانہ کی مناسبت سے اس زمانہ کے علم وفن کے مطابق معجزات عطا کئے جاتے رہے ہیں ۔  کچھ انبیاء کوحسی معجزات عطا ہوئے اور کچھ کوعلمی ۔

 حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے میں فن طب عروج پر تھا طبیبوں کا دعوی تھا وہ مریض کو موت کے منہ سے واپس لا سکتے ہیں ۔ لہذا اس مناسبت سے اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام کو مردہ کو زندہ کرنے کا معجزہ عطا فرمایا ۔ابرص کے مریض کا شفایاب اور اندھے کا بینائی کرنے کے معجزات عطا کئے گئے ۔

 فرعون کے زمانہ میں جادو کا فن عروج پر تھا ۔ لہذا اس مناسبت سے موسی علیہ السلام کو عصاء اور ہاتھ کی چمک کا معجزہ عطا کیا گیا جو جادوگروں کے تمام کمالات کو ہضم کر گیا اور فرعون کی آنکھوں کو چکا چوند کر گیا ۔ لیکن چونکہ تمام انبیاء کی نبوت مخصوص زمانہ تک کے لئے تھی ، لہذا انہیں معجزہ بھی ایسا دیا گیا  جو ان کے عہد کے ساتھ ختم ہو گیا،  ہمارے نبی ﷺ کی نبوت قیامت تک کرنے والے تمام انسانوں کے لئے ہے ، اس لئے آپ کوحسی معجزات کے ساتھ علمی معجزہ یعنی  قرآن کریم دیا گیا ، جو قیامت تک کرنے والے تمام انسانوں کے لئے ہدایت اسلام اور نبی ﷺ کی نبوت کی صداقت کا علم بن کر لہراتا رہے گا ۔ حسی معجزات کو بہت سے اہل علم نے اپنی کتابوں کی زینت بنایا ہے ۔

اٹھواں ماخذ علم قصص الانبیاء و المرسلین : مولانا ابوالحسن علی ند وی فرماتے ہیں ۔ قرآن مجید نے انسانی دل و دماغ میں توحید و رسالت کے مضامین کو اتارنے کے لئے جو وسائل و ذرائع اختیار کئے ہیں ان میں قصص و حکایات کو مرکزی اہمیت حاصل ہے  ۔   قرآن کریم نے قصص کو بہت اہمیت دی ہے ۔ آپ دیکھیں کہ حضرت موسی اور حضرت ابراہیم کے تذکرے واقعات اور قصے کتنے مقامات پر قرآن کریم نے ذکر کئے گئے ہیں ، ایک پوری سورت حضرت یوسف علیہ السلام سے متعلق ہے اور  ان کے قصہ پر مبنی ہے ، لیکن وہ اعلی درجہ کی دانشمندانہ باتوں اور مواعظ پرمشتمل ہے ، ایسے واقعات پر مبنی ہے کہ ان کے بغیر بہت سے حقائق سمجھ میں نہیں آ سکتے ۔  خود قرآن کریم کہتا ہے ۔

لَقَدْ كَانَ فِيْ قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ  ۭ مَا كَانَ حَدِيْثًا يُّفْتَرٰى وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ. سورة يوسف 111

ان قصوں میں  عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں ، یہ بناوٹی باتیں نہیں ہیں ، بلکہ پچھلے واقعات کی تصدیق ہیں ۔

سیرت کاقصص الانبیاء سے تعلق : قرآن کی واضح تعلیم ہے کہ انبیاء و امم سابقین سے استفادہ کر و عبرت ونصیحت کے نقطہ نظر سے ہمارے پیغمبر ﷺ  پر جو حالات گزرے وہ پچھلوں پر بھی گزرے تھے ۔ آپ ﷺ نے متعدد مواقع پر کئی عمل میں اپنے کو پچھلے انبیاء کا مشابہ قرار دیا ہے ۔ اس لئے نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کو سمجھنے کے لئے ہمیں ان قصص سے استفادہ کرنا چاہئے ۔ قصص کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔

 (1)قصص القرآن ۔

(2) قصص الحديث۔

 قرآن کریم نے جن قصوں کو بیان کیا ہے وہ بھی سیرت نگاری کی اصل ہیں اور حدیث میں جن قصوں کو بیان کیا گیا ہے وہ بھی سیرت نگاری کی اصل و  ما خذ ہیں ۔ لہذا قصص القرآن پر بہت سی کتابیں عربی اردو عربی  میں لکھی گئی ہیں ۔

اور اسی طرح جو قصے یا حکایات حدیث کی کتابوں میں وارد ہوئے ہیں ، وہ نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک سے بیان ہوئے ہیں ، ان کی صداقت وصحت میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔ حدیث شریف میں ان نقص کی بڑی اہمیت ہے اس لئے شراح نے ان کی تشریح و بیان کی طرف خصوصی توجہ کیا ہے ۔ ان سے بہت سے فوائد مستنبط کئے ہیں ان کے ادبی و دعوتی پہلو پر بھی ان کی نظر ہے اور اس جانب شراح حدیث میں علامہ عینی نے خاص توجہ دی  ہے۔  موجودہ دور میں بہت سے علماء نے ان قصص کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جن سے بہت سے دروس وعبر مستنبط کئے ہیں اور ان کے ادبی و دعوتی پہلو پر بھی گفتگو کی ہے ۔ اس مؤضوع پر بھی کتابیں کھی گئی ہیں ۔  خلاصہ کلام یہ ہے کہ سیرت نگاری کے لئے ان ققص سے استفادہ کیا جانا چاہئے تا کہ عبرت وموعظت کو موثر بنا کر بلیغ کا صیح حق ادا کیا جاسکے ۔(سیرت نگاری 178)

نواں ماخذ علم آثار صحابہ و صحابیات :   جو عمل نبی ﷺ سے منقول ہو ، اسے آثار نبوی کہا جاتا ہے ، اس طرح جب یہ لفظ مطلق استعمال ہو تو بھی یہی مطلب ہوتا ہے ۔لیکن جو عمل صحابہ یا صحابیات سے منقول ہوا سے آثار صحابہ کہتے ہیں ۔    سیرت طیبہ پر لکھنے والوں میں محدث بھی ہیں اور فقیہ بھی ، مورخ بھی ہیں اور سیرت نگار بھی ، مد بر بھی ہیں اور قانون دان بھی ، ادیب بھی ہیں اور شاعر بھی ، اپنے بھی ہیں اور بیگانے بھی ، اپنوں نے جس صحت ، جامعیت ، دقت نظر اور شفقت سے رسول مبین ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی حیات مبارکہ اور آپ ﷺ کے عہد ہمایوں پر قلم اٹھایا ، وہ تو خیر تحسین کے قابل تھے ہی، لیکن بعض دوسرے لوگوں نے بھی اس کام کو جس گہری نظر سے انجام دیا ہے ، وہ بھی داد کے قابل ہیں ۔ صحابہ کو حضور ختمی مرتبت ﷺ سے ایک شعوری اور جذباتی لگاؤ تھا ، وہ آپ ﷺ کو دیکھتے رہے لیکن ان کی آنکھیں تھکتیں ، وہ آپ ﷺ کو سنتے رہتے لیکن اکتاہٹ محسوس نہ کرتے ، دید میں بھی انہیں حسرت دید رہی ، جہد و کوشش کی کڑی سے کڑی آزمائش سے گزرنے کے باوجود ان کی ہمتیں پست ہوئیں نہ ان کے پاؤں ڈگمگاۓ ، اتباع رسول ﷺ میں انہوں نے سرمو  انحراف کیا نہ کبھی تعمیل ارشاد میں ان سے سستی ہوئی ۔ ان صحابہ کبار کے لئے آپ ﷺ کی اطاعت میں ذات خداوندی کی اطاعت تھی ، اور قربات عند اللہ کا واحد ذریعہ ۔

 سیرت کا آثار صحابہ سے تعلق : یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کریم کے احکام پر اس وقت عمل کیا جا سکتا ہے جب نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کو نمونہ بنا کر ان طریقوں کو اپنایا جا ئے ، جنہیں رسول اللہ ﷺ نے پسند فرمایا اور ویسا ہی عمل کیا جائے جیسا آپ  ﷺنے کر کے دکھایا ، یہی سیرت ہے اور یہ عمل ہم تک صحابہ کے توسط سے پہنچا ہے ۔ گویا دوسرا نمونہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل ہے جسے بسا اوقات تعامل اہل مدینہ کے نام سے بھی یاد کیا جا تا ہے، چنانچہ مالکیوں نے اہل مدینہ کے عرف و عادات اور طور طریقوں کو قانون سازی میں بہت اہمیت دی ہے ۔ صحابہ کرام کا درجہ امت اسلامیہ میں بہت بلند ہے اور نبی اکرم ﷺ کے وفات کے بعد کسی بھی انسان کو صحابی ہونے کا شرف حاصل نہیں ہوسکتا ۔ نیز صحابہ کرام نے دین اسلام کو اپنے خون سے سینچا اور اپنی جانیں ہتیلی پر رکھ کر دین کی حفاظت کی ۔ ان میں عشرہ مبشرہ ہیں ۔ ان میں اہل بدر  و احد ہیں ۔

خلاصہ بحث یہ ہے، کہ سیرت نگار کی نظر اس ذخیرہ پر بھی ہونی چاہئے  جس میں  اقوال صحابہ کرام موجود ہوں کیونکہ سیرت نگاری کے لئے یہ بھی ماخذ مانا گیا ہے  ۔

 دسویں ماخذ علم تاریخ : علم تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ علم تاریخ دیگر علوم کی بنسبت  قدیم ہے، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ علم انسان سے بھی زیادہ قدیم ہے تو بے جا نہ ہوگا  ،  جیسا کہ قرآنی قصص تاریخ آدم اور تخلیق کائنات کے تذکر ہ سے واضح ہوتا ہے ۔

 لغوی و اصطلاحی تعریف : تاریخ (History )سے مراد  دن ، رات ، مہینے یا کسی چیز کے ظہور کا وقت یا ایسا فن یا کتاب ہے جس میں مشہور افراد حکمرانوں ، روایات قصوں اور جنگوں کے حالات کا بیان ہو ( فیروز اللغات)

 جوہری کہتے ہیں ، تاریخ وقت کی تعریف کا نام ہے اور توریخ کا بھی یہی مفہوم ہے ، اس کا مادہ ارخ ہے ۔ بمعنی نئی چیز نوزائیدہ ۔ ( الصحاح)۔

 تاریخ کا لغوی مفہوم بیان کرتے ہوئے ابن منظور لکھتے ہیں ۔ التاریخ حریف الوقت ، والتاريخ مثلہ ۔ تاریخ وقت کو پہچاننے کا نام ہے اور توریخ بھی اس طرح ہے ۔( لسان العرب )

انسان جس علم کے ذریعہ وقت ‘ ‘ اور حوادث وقت و  زمانہ کو پہچانے وہ علم تاریخ کہلاتا ہے ۔

سیرت کا تاریخ سے تعلق : تاریخ کی بنیاد راوی پر ہے جس کی وجہ سے علم رجال وجود میں آیا ، تاکہ راوی کی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خبر کی تصدیق کی جاسکے ، اس طرح سیرت بھی ایک حیثیت میں تاریخ ہے اس لئے کہ تاریخ کے دائرہ میں سوانح بھی داخل ہے ۔ جو کتابیں تاریخ اسلام و المسلمین کے حوالہ سے مرتب کی گئی ہیں ان میں سے اکثر کا ابتدائی حصہ یا درمیانی حصہ سیرت طیبہﷺ مشتمل ہے ۔ مثلا

(1)             طبقات ابن سعد کی ابتدائی دو جلد میں سیرت پر ہیں ۔

(2)              المعارف لابن قتیبه  دیگر انبیاء کے ساتھ ہمارے نبی کا نسب نامہ و کوائف  ہیں ۔

(3)             تاریخ طبری میں سیرت کا مواد موجود ہے ۔  وغیرہ  (سیرت نگاری  214)

یہی وجہ ہے اصول سیرت میں سے ایک اصول یا  ماخذ  تاریخ کو قرار دیا گیا ہے ۔

تلک عشرۃ کاملۃ: محترم قارئین ،ہم نے دس اصولوں ( ماخذ)   پر  اکتفاء کر دیا  ، اس کے علاوہ اور بھی سیرت کے ماخذ ہیں جسے علماء نے ذکر کئے ہیں جیسا کہ

علم اسماء الرجال

علم تاریخ حرمین

علم جغرافیہ

علم اصول الحدیث

علم الناسخ و المنسوخ

حکمت و علم نفسیات

کتب مذاہب مقدسہ

علم ادب جاہلیہ

مخضرمی و اسلامی ادب

علم لغت

علم قرات و لہجات عرب

علم اسلامی معلومات عامہ

علم تقویم و التوقیت ۔

 

اہل عرب کی دینی اور اخلاقی حالت

  اہل عرب کی دینی اور اخلاقی حالت   چھ سو برس قبل از مسیح تک اہل عرب بت پرستی کی لعنت سے پاک اور دین ابراہیمی کے پیروکار تھے مگر رفتہ رفتہ ج...