عرب کسے کہتے ہیں اور عرب قبائل
سیرت النبی ﷺ کو جاننے کے لئے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ یہ جان لیا جائے کہ عرب کسے کہتے
ہیں اور بعثت سےپہلے اور بعد کے حالات کا تقابل جانا جائے، اس لئے اصل بحث سے پہلے
عرب کا مطلب اور اسلام سے قبل عرب کی
اقوام اور ان کی عقائد پر گفتگو جن کی طرف
رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی ۔
عرب کو عرب کیوں کہتے ہیں
وجہ تسمیہ عرب: عرب کو "عرب" کیوں کہتے ہیں ؟ اس کے مختلف جوابات دیئے گئے ہیں ،
"عرب" اعراب سے مشتق ہے جس کے معنی زبان آوری اور اظہار مافی الضمیر کے
ہیں ، چونکہ عرب کی قوم نہایت زباں آور اور فصیح اللسان تھی اس لئے اس نے اپنا نام
عرب رکھا ، اور اپنے سوا تمام دنیا کو اس نے عجم یعنی " بے زبان " کے
نام سے پکارا، لیکن حقیقت میں یہ صرف نکتہ آفرینی اور دقّت رسی ہے ، دنیا میں ہر
قوم اپنی زبان کی اسی طرح جوہری ہے جس طرح عرب ۔
علمائے انساب کہتے ہیں کہ اس ملک کا پہلا
باشندہ یعرب بن قحطان ، جو یمنی عربوں کا پدر اعلی ہے ، اس لئے اس ملک کے باشندوں
کو اور نیز اس ملک کو عرب کہنے لگے ، لیکن یہ بالکل خلاف قیاس اور معلومات تاریخی
کے مخالف ہے ، نہ یعرب اس ملک کا پہلا باشندہ تھا اور نہ لفظ عرب کسی قاعدہ لسانی یمن
تھا۔اس لئے سب سے پہلے خود یمن یعنی جنوبی
عرب کو عرب کہنا چاہیئے ، لیکن اس کے برخلاف "عرب " کا لفظ پہلے شمالی
عرب کے لئے مستعمل ہوا ۔
اہل جغرافیہ کہتے ہیں اور بالکل صحیح کہتے ہیں
کہ "عرب " کا پہلا نام " عربۃ " تھا جو ۔۔ بعد کو عموما
" عرب " بولا جانے لگا ، اور اس کے بعد ملک کے نام سے خود قوم کا نام بھی
قرار پاگیا چنانچہ شعرائے عرب کے اشعار سے بھی جو عرب کی تنہائی ڈکشنری ہے ، اس کی
تصدیق ہوتی ہے ۔
اسد بن جاحل کہتا ہے۔
وعربة ارض جدّ فی الشر اهلها ***** کما جدّ فی شرب
النقاخ ظماء
ابن منقذ ثوری کا شعر ہے ۔
لنا ابل لم یطمث الذُّل بینها ***
بعربة ماواها بقرن فابطهاها
ولوا ن قومی طاوعتنی سراتة امرتهم الامر الذی کان اریحا
اسلام کے بعد بھی یہ نام باقی رہا ، ابو سفیان
کلبی رسول اللہ ﷺ کی مدح میں کہتے ہیں۔
ابونا رسول الله و ابن خلیله بعربة بوَّانا فنعم المرکب
ابوطالب بن عبد المطلب کی طرف جو قصیدہ منسوب
ہے ،(گو صحیح نہیں )اس کا ایک شعر ہے۔
وعربة دار لا یحل حرامها **** من الناس الا
اللوذعی الحلاحل
(ان
مذکورہ اشعار کی تفصیل لے لئے دیکھئے معجم البلدان ، یاقوت لفظ" عربۃ ")
اب دوسرا سوال یہ ہے کہ اس ملک کا نام "
عربۃ " کیوں قرار پا یا ؟ اصل یہ ہے
کہ تمام سامی زبانوں میں " عربۃ " صحرا اور بادیہ کا مفہوم رکھتا ہے ۔
عبرانی میں "عربا" عرابۃ کے معنی
بدویت کے ہیں اور اعراب اہل بادیہ اور صحرا نشینوں کے لئے اب تک مستعمل ہے ۔
چونکہ عرب کا ملک زیادہ تر ایک بیابان بے آب گیاہ
ہے اور خصوصا وہ حصہ جو حجاز سے بادیۂ عرب و شام اور سینا تک پھیلا ہواہے ، اس لئے
اس کا نام "عربا" قرار پایا ، اور پھر رفتہ رفتہ وہاں کے باشندوں کو
" عرب " کہنے لگے ۔
قرآن مجید میں لفظ" عرب " ملک عرب کے
لئے کہیں نہیں بولا گیا ہے ، حضرت اسمعیل ؑ کی سکونت کے ذکر میں "واد غیر ذی
زرع" یعنی " وادی ناقابل کاشت " اس کو کہا گیا ہے اکثر لوگ اس
نام کو عرب کی حالت طبعی کا بیان سمجھتے ہیں
، لیکن اوپر جو حقیقی بیان ہے اس سے واضح ہے کہ یہ لفظ عرب کا بعینہ لفظی ترجمہ ہے
، چونکہ اس عہد میں اس غیر آباد ملک کا کوئی نام نہ تھا اس لئے خود لفظ " غیر
آباد ملک " اس کانام پڑگیا ، توراۃ میں بھی اسمعیل ؑ کا مسکن
" مدبار " بتایاگیا ہے ، جس کے معنی بیابان اور غیر آباد قطعہ کے
ہیں اور جو بالکل عرب کا ترجمہ اور"واد غیر ذی زرع " کے مرادف ہے ۔
تورات میں لفظ " عربا" کے ایک خاص قطع زمین کے معنی میں متعدد بار آیا ہے ، لیکن یقینا اس وسعت کے ساتھ اطلاق نہیں ہواہے جس وسعت کے ساتھ اب یہ کیا جاتاہے ، لفظ " عربا" سے صرف و ہ قطعہ زمین مراد لیا گیا ہے جو حجاز سے شام و سینا تک وسیع ہے ۔ (استثنا ) عام ملک عرب کے لئے زیادہ تر مشرق اور مشرق کی زمین کا استعمال ہوا ہے ، اور کبھی جنوب کا ، کیونکہ عرب فلسطین کے مشرق و جنوب دونوں گوشوں میں ہے ۔ لفظ " عرب " سب سے پہلے 1000ق ،م میں حضرت سلیمان ؑ کے عہد میں سننے میں آتاہے اور پھر اس کے بعد عام طور سے اس کا استعمال عبرانی ، یونانی اور رومانی تاریخوں میں نظر آتاہے اسیریا کے کتبات میں 800ق ،م میں عرب کانام " عریبی " لیا گیا ہے ۔ اسلام سے پہلے ہی یہ لفظ پورے ملک کو جو یمن سے شام تک وسیع ہے محیط تھا ۔ عبارت بالا سے ظاہر ہوگا کہ عرب قدیم کے جغرافیہ کے تین ماخذ ہیں ، تورات ، یونان ، و رومان ، اور خود عرب ، اور ایک عجیب اتفاق یہ ہے کہ یہ تین مختلف ماخذتین مختلف زمانوں سے متعلق ہیں ، تورات کا بیان 2500 ق ، م سے تقریبا 800ء یونان و رومان بیان 500م ، ق (ہیروڈوٹس ) اسے 200ء (بطلیموس ) تک ہے ۔ خود عربوں کے بیانات عرب کے مقامات کے متعلق جو بعہد اسلام مدون ہوئے چند مشہور قبائل کے مقامات سکونت کے سوا (مثلا احقاف مسکن عاد ، مدین ،مسکن ثمود ، یمامہ، مسکن طسم و جدیس حجاز مسکن جریم ، یمن مسکن قحطان )عہد مسیح ؑ سے بعد کے ہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ عرب تصنیف و تالیف آشنا نہ تھے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ "صاحب البیت ادری بمافیہ"۔ عرب کے شعراء کا عام مذاق یہ ہے کہ وہ قصائد میں محبوب کے دیار و مسکن او راپنے سفر کے مقامات و منازل کا تذکرہ کیا کرتے ہیں ، علمائے اسلام نے ان ہی سے عرب کا جغرافیہ وصفی ترتیب دیا ہے ۔
( تاریخ ارض قرآن ، جلد اول ص 66-69، علامہ سید سلیمان ندویؒ )
عرب اقوام و قبائل: عرب قبائل کے
متعلق جان لیجئے کہ ، ملک عرب میں قدیم سے سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد آباد
رہی ، مؤرّخین نے نسلی اعتبار سے عرب اقوام کی تین قسمیں قرار دی ہیں۔
(1) عرب بائدہ:- یعنی وہ قدیم عرب قبائل اور قومیں جو بالکل ناپید ہوگئیں اور ان کے
متعلق ضروری تفصیلات بھی دستیاب نہیں۔ مثلاً: عاد ، ثمود، طَسم ، جَدِیس ،
عَمَالِقَہ ، امیم ، جرہم، حضور ، وبار، عبیل اور حضرموت وغیرہ۔ ، ان کا تمام
جزیرہ نمائے عرب میں دور دور ہ رہا اوران کے بعض بادشاہوں نے مصر تک کو فتح
کیا،اُن کے تفصیلی حالات تاریخوں میں نہیں ملتے؛ لیکن نجد واحقاف وحضر موت ویمن
وغیرہ میں ان لوگوں کی بعض عمارات اورآثارِ قدیمہ،بعض پتھروں کے ستون، بعض
زیورات، بعض سنگ تراشیاں ایسی موجود ملتی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنے زمانہ
میں یہ لوگ خوب طاقتور اورصاحبِ رعب وجلال ہوں گے،ان قبائل میں عاد بہت مشہور
قبیلہ ہے، علامہ زمخشری نے اسی شداد ابنِ عاد کی نسبت لکھا ہے کہ اُس نے صحرائے
عدن میں مدینہ ارم بنوایا تھا، مگر اس مدینہ ارم یا باغِ ارم کا کوئی نشان کہیں
نہیں پایا جاتا،قرآن کریم میں بھی ارم کا ذکر آیا ہے،لیکن اس سے مراد قبیلہ ارم
ہے نہ مدینہ ارم یا باغِ ارم،قبیلہ ارم غالباً اسی قبیلہ عاد کا دوسرا نام تھا یا
قبیلہ عاد کی ایک شاخ تھا، یا قبیلہ عاد قبیلہ ارم کی ایک شاخ تھا،خدا تعالیٰ
فرماتا ہے :" أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ
بِعَادٍ،إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ،الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ"(کیا
تم نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ تمہارے پروردگارنے عادِ ارم کے لوگوں کے ساتھ کیا
برتاؤ کیا جو ایسے بڑے قد آور تھے کہ قوتِ جسمانی کے اعتبار سے دنیا کے شہروں
میں کوئی مخلوق ان جیسی پیدا نہیں ہوئی.
(2) عرب عاربہ:-
وہ عرب قبائل جو یعرب بن یشجب بن قحطان کی نسل سے ہیں۔ انہیں قحطانی عرب کہا جاتا
ہے۔قحطان سے پیشتر نوح علیہ السلام تک قحطان کے بزرگوں میں کسی کی زبان عربی نہ
تھی،قحطان کی اولاد نے عربی زبان استعمال کی اوریہ زبان عرب بائدہ سے حاصل کی، ،
عرب عاربہ یا قحطانی قبائل میں بعض بڑے بڑے بادشاہ گذرے اورتمام جزیرہ نمائے عرب
پر یہ لوگ متولی رہے، یعرب بن قحطان نے عرب بائدہ کی رہی سہی تمام نسلوں
اورنشانیوں کا خاتمہ کردیا تھا-قحطانی قبائل کا اصلی مقام اور قدیمی وطن یمن سمجھا
جاتا ہے، انہوں نے ملک یمن کی آبادی وسرسبزی میں خاص طور پر کوششیں کیں،انہیں میں
؛بلکہ بلقیس تھی جو سلیمان علیہ السلام کی معاصرہ تھی۔ قحطانی قبائل کے خاندان اور قبیلے مختلف شاخوں
میں پھوٹے پھلے اور بڑھے، ان میں سے دو قبیلوں نے بڑی شہرت حاصل کی ۔
(الف) ( حمیر )
جس کی مشہور شاخیں زید الجمہور ،قضاعہ اورسکاسک ہیں ۔
(ب ) (کہلان ) جس کی مشہور شاخیں ہمدان ،
انمار ،طی، مذحج ،کندہ، لحم،جذام،ازداوس، خزرج اور اولاد جفنہ ہیں ،جنہوں نے آگے
چل کر ملک شام کے اطراف میں بادشاہت قائم کی اور آل غستان کے نام سے مشہور ہوئے ۔ عام کہلانی قبائل نے بعد میں یمن چھوڑ دیا اور
جزیرۃ العرب کے مختلف اطرات میں پھیل گئے ۔ ان کے عمومی ترک وطن کا واقعہ سیل عرم
سے کسی قدر پہلے اس وقت پیش آیا جب رومیوں نے مصر و شام پر قبضہ کر کے اہل یمن کی
تجارت کے بحری راستے پر اپنا تسلط جمالیا ،اور بری شاہراہ کی سہولیات غارت کر کے
اپنا دباؤ اس قدر بڑھا دیا کہ کہلانیوں کی
تجارت تباہ ہو کر رہ گئی ۔ کچھ عجب نہیں کہ کہلانی اور حمیری خاندانوں میں چشمک
بھی رہی ہو اور یہ بھی کہلانیوں کے ترک وطن کا ایک موثرسبب بنی ہو ۔ اس کا اشارہ
اس سے بھی ملتا ہے کہ کہلانی قبائل نے تو ترک وطن کیا ۔ لیکن حمیری قبائل اپنی جگہ
برقرار ہے ۔
جن کہلانی قبائل نے ترک وطن
کیا ان کی چارقسمیں کی جاسکتی ہیں
(1) (ازد ) انہوں نے اپنے سردار عمران
بن عمرو مز یقیاء کے مشورے پر ترک وطن کیا ۔ پہلے تو یہ یمن ہی میں ایک جگہ سے
دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے اور حالات کا پتا لگانے کے لیے آگے آگے ہراول دستوں کو
بھیجتے رہے لیکن آخر کار شمال کا رخ کیا
اور پھر مختلف شاخیں گھومتے گھماتے مختلف جگہ دائمی طور پر سکونت پذیر ہوگئیں ۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے ۔
(ثعلبہ دن عمرو) اس نے اولا حجاز کا رخ کیا اور تعلبیہ اور ذی قار کے درمیان اقامت اختیارکی
۔ جب اس کی اولاد بڑی ہوگئی اور خاندان مضبوط ہوگیا تومدینہ کی طرف کوچ کیا ۔ اور
اسی کو اپنا وطن بنا لیا ۔ اسی ثعلیہ کی نسل سے اؤس اور خزرج ہیں جو ثعلیہ کے صاجزادے حارث کے بیٹے ہیں ۔
(حارثہ بن
عمرو) یعنی خزاعہ اور اس کی اولاد یہ لوگ پہلے سرزمین حجاز میں گردش کرتے
ہوئے مرالظہران میں خیمہ زن ہوئے ۔ پھر
حرم پر دھاوا بول دیا اور بنو جرہم کو
نکال کر خود مکہ میں بود و باش اختیار کر لی ۔
( عمران بن عمرو) اس نے اور
اسکی اولاد نے عمان میں سکونت اختیار کی اسلیے میرلوگ از دعمان کہلاتے ہیں ۔
( نصر بن از د) اس سے تعلق رکھنے والے قبائل نے تہامہ میں قیام
کیا ۔ یہ لوگ از دشنوءۃ کھلاتے ہیں ۔
(جفنه بن عمرو) اس نے ملک شام کا رخ کیا ۔ اور اپنی اولا وسمیت
وہیں متوطن ہوگیا ۔ یہی شخص غسانی بادشاہوں کا جد اعلی ہے ۔ انہیں آل غسان اس لیے کہا جا تا ہے
کہ ان لوگوں نے شام منتقل ہونے سے پہلے حجاز میں غسان نامی ایک چشمے پرکچھ عرصہ قیام کیا تھا ۔
(2) لخم و جذام : ان ہی لخمیوں میں نصر بن ربیعہ تھا جو حیرہ کے شاہان آل منذر کا جد اعلی ہے ۔
(3) بنوطئ :
اس قبیلے نے بنو ازد کے ترک وطن کے بعد
شمال کا رخ کیا اور اجا،اورسلمی نامی دو
پہاڑیوں کے اطراف میں مستقل طور پر سکونت پذیر ہوگیا ، یہانتک کہ یہ دونوں پہاڑیاں
قبیلہ طئ کی نسبت سے مشہور ہوگئیں ۔
(4) کندہ : یہ لوگ پہلے بحرین (موجودہ الاحساء) میں خیمہ زن ہوئے لیکن مجبورا وہاں سے دستکش
ہوکر حضرموت گئے ۔ مگر وہاں بھی آمان نہ ملی اور آخر کار نجد میں ڈیرے ڈالنے پڑے ۔
یہاں ان لوگوں نے ایک عظیم الشان حکومت کی داغ بیل ڈالی، مگر حکومت پائیدار ثابت
نہ ہوئی اوراس کے آثار جلد ہی ناپید ہو گئے ۔
کہلان کے علاوہ حمیر کا بھی
صرف ایک قبیلہ قضاعہ ایسا ہے ۔ اور اسکا حمیری ہونا بھی مختلف فیہ ہے ، جس نے یمن
سے ترک وطن کرکے حدو دعراق میں بادیۃ السمادہ
کے اندر بود و باش اختیار کی ۔( محاضرات الامم الاسلامیہ للخضری 1/11-13)
(3) عرب مستعربہ:۔
وہ عرب قبائل جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔ انہیں
عدنانی عرب کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ ملکِ عرب میں باہر سے آکر آباد ہوئے،اس لئے ان کو
عرب مستعربہ یا مخلوط عرب کا خطاب دیا گیا ،حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مادری
زبان عجمی تھی،حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام معہ ان کی
والدہ ہاجرہ کے جب مکہ معظمہ (ملک حجاز) میں چھوڑ گئے۔
اس
وقت مکہ میں نہ پانی تھا نہ آدم زاد ۔ اس
لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک توشہ
دان میں کھجور اور ایک مشکیزے میں پانی رکھ دیا ۔ اس کے بعد فلسطین واپس چلے گئے
لیکن چند ہی دن میں کھجور اور پانی ختم ہوگیا سخت مشکل پیش آئی مگر اس مشکل وقت پر
اللہ کے فضل سے زمزم کا چشمہ پھوٹ پڑا اور ایک عرصہ تک کے لیے سامان رزق اور متابع
حیات بن گیا ۔ (تفصیل کے لئے بخاری 1/475 دیکھئے )
کچھ
عرصے بعد یمن سے ایک قبیلہ آیا جسے تاریخ
میں جرہم ثانی کہا جاتا ہے ۔ یہ قبیلہ
اسماعیل علیہ السلام کی ماں سے اجازت لے کر مکہ میں ٹھہر گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قبیلہ
پہلے مکہ کے گردوپیش کی وادیوں میں سکونت پذیر تھا ۔ صحیح بخاری میں اتنی صراحت
موجو دہے کہ (رہائش کی غرض سے )یہ لوگ حضرت اسماعیل علیہ اسلام کی آمد کے بعد اور
ان کے جوان ہونے سے پہلے وارد ہوئے تھے ۔ لیکن اس وادی سے ان کا گزر اس سے پہلے
بھی ہوا کرتا تھا۔( بخاری 1/475)۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے متروکات کی
نگہداشت کے لیے وقتا فوقتا مکہ تشریف
لایاکرتے تھے لیکن معلوم نہ ہوسکا کہ اس طرح ان کی آمدکتنی بار ہوئی ۔ البتہ تاریخی مآخذ میں چار بار ان کی آمد کی
تفصیل محفوظ ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہے ۔
(1)قرآن مجید میں بیان کیا
گیا ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو خواب میں دکھلایا کہ وہ اپنے صاحبزادے (حضرت اسماعیل علیہ السلام ) کو ذبح کر رہے ہیں ۔ یہ خواب
ایک طرح کا حکم الہی تھا اور باپ بیٹے دونوں اس حکم الہی کی تعمیل کے لیے تیار ہو
گئے ۔ اور جب دونوں نے تسلیم خم کر دیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا
تواللہ نے پکارا ہے ابراہیم ! تم نے خواب کو بیچ کر دکھایا ۔ ہم نیکو کاروں کو اسی
طرح بدلہ دیتے ہیں ۔ یقینا یہ ایک کھلی ہوئی آزمائش تھی اور اللہ نے انہیں فدیے میں
ایک عظیم ذبیحہ عطا فر مایا۔ (تفصیل ملاحظہ کریں سورۃ الصافات آیت 102— 107 تک) اس
واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے جوان ہونے سے پہلے کم ازکم
ایک بار حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کا سفر ضرور کیا تھا ۔ بقیہ تین سفروں کی
تفصیل صحیح بخاری کی ایک طویل روایت میں ہے جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا
مروی ہے (بخاری نمبر 3364)جس کا خلاصہ یہ
ہے ۔
(2) حضرت اسماعیل علیہ السلام
جب جوان ہو گئے ۔قبیلہ جرہم سے عربی سیکھ لی اور ان کی نگاہوں میں جچنے لگے تو ان
لوگوں نے اپنے خاندان کی ایک خاتون سے آپ کی شادی کر دی ۔ اسی دوران حضرت باجرہ کا
انتقال ہوگیا ۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کوخیال ہوا کہ بات کہ دیکھنا چاہئے ۔
چنانچہ وہ مکہ تشریف لے گئے ۔ لیکن حضرت اسماعیل سے ملاقات نہ ہوئی ۔ بہو سے حالات
دریافت کئے ۔ اس نے تنگ دستی کی شکایت کی ۔ آپ نے وصیت کی کہ اسماعیل علیہ السلام
آئیں توکہنا اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں ۔ اس وصیت کا مطلب حضرت اسماعیل علیہ
السلام سمجھ گئے بیوی کو طلاق دے دی اور ایک دوسری عورت سے شادی کر لی جو جرہم کے
سردار مضاض بن عمرو کی صاحبزادی تھی۔(قلب جزیرۃ
العرب 230)
(3) اس دوسری شادی کے بعد ایک
بار پھر حضرت ابرام علیہ السلام مکہ تشریف لے گئے مگر اس دفعہ بھی حضرت اسماعیل علیہ
السلام سے ملاقات نہ ہوئی ۔ بہو سے احوال دریافت کئے تو اس نے اللہ کی حمد وثناء کی
، آپ نے وصیت کی کہ اسماعیل علیہ السلام اپنے دروازے کی چوکھٹ برقرار رکھیں اور
فلسطین واپس ہو گئے ۔
(4) چھوتی بار جب حضرت
ابراہیم علیہ السلام مکہ میں تشریف لائے
تو اسماعیل علیہ السلام زمزم کے قریب درخت کے نیچے تیر گھڑ رہے تھے ۔ دیکھتے ہی
لپک پڑے اور وہی کیا جو ایسے موقع پر ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور بٹیا باپ کے
ساتھ کرتا ہے ۔ یہ ملاقات اتنے طویل عرصے کے بعد ہوئی تھی کہ ایک نرم دل اور شفیق
باپ اپنے بیٹے سے اور ایک اطاعت شعار بیٹا اپنے باپ سے بمشکل ہی اتنی لمبی جدائی
برداشت کر سکتا ہے ۔اسی دفعہ دونوں نے مل کر خانہ کعبہ تعمیر کیا ۔ بنیاد کھودکر دیواریں
اٹھائیں اورابراہیم علیہ اسلام نے ساری دنیا کے لوگوں کو حج کے لیے آواز دی ۔ اللہ
تعالی نے مضاض کی صاحبزادی سے اسماعیل علیہ السلام کو بارہ بیٹے عطا فرمائے، جن کے نام یہ ہیں ۔ نابت یا نبایوط ، قیدار ،
ادبائیل ، مبشام ، مشماع ، دوما، میشا ، حدد ، تیما ، یطور نفیس ، قیدمان، ان بارہ بیٹوں سے بارہ قبیلے وجود میں آئے اور
سب نے مکہ ہی میں بودو باش اختیار کی ۔ ان کی معیشت کا دارومدار زیادہ تر یمن اور
مصر و شام کی تجارت پر تھا ۔ بعد میں یہ قبائل جزیرۃ العرب کے مختلف اطراف میں،
بلکہ بیرون عرب بھی پھیل گئے، اور ان کے
حالات ، زمانے کی دبیز تاریکیوں میں دب کر رہ گئے ۔ صرف نابت اور قیدار کی اولا
داس گمنامی سے مستثنی ہیں ۔ نبطیوں کے تمدن کو شمالی حجاز میں فروغ اور عروج حاصل
ہوا ۔ انہوں نے ایک طاقتور حکومت قائم کر کے گرد و پیش کے لوگوں کو اپنا باجگذار
بنالیا بطراء ان کا دارالحکومت تھا ۔ کسی کو ان کے مقابلے کی تاب نہ تھی ۔ پھر رومیوں
کا دور آیا اور انہوں نے نبطیوں کو قصہ پارینہ بنا دیا ۔
مولاناسید سلیمان
ندوی نے ایک دلچسپ بحث اور گہری تحقیق کے بعد ثابت کیا ہے کہ آل غسان اور انصاریعنی
اوس وخزرج قطانی عرب نہ تھے ، بلکہ اس علاقے میں نابت بن اسماعیل
کی جو نسل بچی کھچی رہ گئی تھی وہی
تھے۔(تاریخ ارض قرآن 2/78-86)
قیدار بن اسماعیل علیہ السلام کی نسل مکہ ہی میں
پھلتی پھولتی رہی،یہاں تک کہ عدنان اور پھران کے بیٹے معد کا زمانہ آگیا ۔ عدنانی
عرب کا سلسلہ نسب صحیح طور پر یہیں تک محفوظ ہے ۔
عدنان ، نبی ﷺ کے
سلسلہ نسب میں اکیسویں پشت پر پڑتے ہیں ۔ بعض روایتوں میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ
جب اپنا سلسلہ نسب ذکر فرماتے تو عدنان پر پہنچ کر رک جاتے اور آگے نہ بڑھتے ۔
فرماتے کہ ماہرین انساب غلط کہتے ہیں(طبری تاریخ الامم والملوک ۱۹۱ / ۲-۱،۱۹۴ لا علام ۵ / ۶)، مگر علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ عدنان سے آگے
بھی نسب بیان کیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے اس روایت کو ضعیعت قرار دیا ہے ۔ ان کی
تحقیق کے مطابق عدنان اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درمیان چالیس پشتیں ہیں ۔
بہرحال معد کے بیٹے نزار سے جن کے متعلق کہا جا تا ہے کہ ان کے علاوہ معدہ کی کوئی
اولاد نہ تھی کئی خاندان وجود میں آئے ، درحقیقت نزار کے چار بیٹے تھے اور ہر بیٹا
ایک بڑے قبیلے کی بنیاد ثابت ہوا ۔ چاروں کے نام یہ ہیں ، ایاد ،
انمار ، ربیعہ اور مضر ،
ان میں سے مؤخر الذکر دو قبیلوں کی شاخیں اور چاخوں کی شاخیں بہت زیادہ ہوئیں ۔
چنانچہ ربیعہ سے اسدبن ربیعہ ،عنزه ، عبدالقیس ، وائل ، بکر ، تغلب اور بنوحنیفہ وغیرہ
وجود میں آئے ۔
مضر کی اولاد دو بڑے قبیلوں میں تقسیم ہوئی
(1) قیس عیلان بن
مضر ۔ (2) الیاس بن مضر ۔
قیس عیلان سے بنوسلیم
، بنو ہوازن ، بنوغطفان ، غطفان سےعبس ، ذبیان ، اشجع اور غنی بن اعصر کے قبائل
وجود میں آئے ۔
الیاس بن مضمر سے
تمیم بن مرہ ، ہذیل بن مدرکہ ، بنواسد بن خزیمہ اور کنان بن خزیمہ کے قبائل جود
میں آئے ۔
پھر کنانہ سے قریش کا قبیلہ وجود میں آیا ۔ یہ قبیلہ فہربن
مالک بن نضر بن کنانہ کی اولاد ہے ۔ پھر قریش بھی مختلف شاخوں میں تقسیم ہوئے ،مشہور
قریشی شاخوں کے نام یہ ہیں۔ جمح، سہم، ، عدی
، محزوم، تیم، زہرہ اورقصی بن کلاب کے خاندان یعنی عبدالدار ، اسدبن عبدالعزی اور
عبد مناف، یہ تینوں قُصِی
کے بیٹے تھے ۔ ان میں سے علادمناب کے چار بیٹے ہوئے جن سے چار ذیلی قبیلے وجود میں
آئے ۔ یعنی عبد الشمس، نوفل، مطلب اور ہاشم،ا
نہیں ہاشم کی نسل سے اللہ تعالی نے ہمارے حضور محمد ﷺ کا انتخاب فرمایا ۔
رسول اللہ ﷺ کا
ارشاد ہے کہ اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے اسماعیل علیہ
السلام کا انتخاب فرمایا، پھراسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کنانہ کو منتخب
کیا، اور ان کی نسل سے قریش کو چنا پھر
قریش میں سے بنو ہاشم کا انتخاب کیا اور بنو ہاشم میں سے میرا انتخاب کیا۔( صحیح
مسلم ۲ / ۴۵ ۲ ، جامع ترندی ۲۰۱/۲)
ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ
ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی نے خلق کی تخلیق فرمائی، تو مجھے سب سے اچھے گروہ میں
بنایا، پھر ان کے بھی دو گروہوں میں سے زیادہ اچھے گروہ کے اندر رکھا ، پھر قبائل
کو چنا تو مجھے سب سے اچھے قبیلے کے اندر بنایا، پھر گھرانوں کو چنا مجھے سے اچھے گھرانے میں بنایا لہذا میں
اپنی ذات کے اعتبار سے بھی سب سے اچھا ہوں ، اور اپنے گھرانے کے اعتبار سے بھی سب
سے بہتر ہوں۔(ترمذی 2/201)۔
بہرحال عدنان کی نسل جب زیادہ بڑھ گئی تو وہ چارے پانی کی
تلاش میں عرب کے مختلف
اطراف میں بکھرگئی ،چنانچہ
قبیلہ عبد القیس نے بکر بن وائل کی کئی
شاخوں نے اور بنوتمیم کے خاندانوں نے بحرین کا رخ کیا اور اسی علاقے میں جا بسے ۔
بنوحنیفہ بن صعب بن
علی بن بکر نے یمامہ کا رخ کیا، اور اس کے مرکز حجر میں سکونت پذیر ہو گئے ۔ بکر
بن وائل کی بقیہ شاخوں نے ، یمامہ سے لے کر بحرین مسائل کا ظلمہ ، خلیج ، سوادعراق
، ابلہ اور ہیت تک کے علاقوں میں بودوباش اختیار کی ۔
بنوتغلب جزیرہ فراتیہ
میں اقامت گزیں ہوئے ۔ البتہ ان کی بعض شاخوں نے بنو بکر کے ساتھ سکونت اختیار کی
۔ بنوتمیم نے بادیہ بصرہ کو اپنا وطن بنایا
۔
بنوسلیم نے مدینہ
کے قریب ڈیرے ڈالے ۔ ان کا مسکن وادی القری سے شروع ہوکر خیبر اور مدینہ کے مشرقی
سے گذرتا ہوا حرہ بوسلیم سے متصل دو
پہاڑوں تک منتہی ہوتا تھا ۔
بنو ثقیف نے طائف کو وطن بنا لیا اور بنو ہوازن نے مکہ کے
مشرق میں وادی او طاس کے گردوپیش ڈیرے ڈالے ۔ ان کا مسکن مکہ ۔ بصرہ شاہراہ پر
واقع تھا ۔
بنواسد تیماءکے مشرق اور کوفہ کے مغرب میں خیمہ زن ہوئے ۔
ان کے اور تیماء کے درمیان بوطئ کا ایک
خاندان بحتر آباد تھا ۔ بنواسد کی آبادی اور کوفے کے درمیان پانی دن کی مسافت تھی
۔ بنو ذبیان تیماء کے قریب خوْرَان کے اطراف میں آباد ہوئے ۔
تِہامہ میں بنوکنانه
کے خاندان رہ گئے تھے ۔ ان میں سے قرشی خاندانوں کی بودو باش مکہ اوراس کے اطراف میں
تھی ، یہ لوگ پراگندہ تھے ، ان کی کوئی شیرازہ بندی نه تھی تا آنکه قصی بن کلاب ابھر کر منظر عام پر آیا، اور قریشیوں کو متحد کر کے شرف وعزت اور بلندی
وقار سے بہرہ ور کیا ہے . (محاضرات خضری ۱ / ۱۹۰۱۵ 41/ 653 بحوالہ الرحیق )
No comments:
Post a Comment